لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ ایسے ہیں خہ اس سرزمین میں سب کو عاجز کردیں، نہیں انہیں خود ایک دن سچائی کے آگے عاجز ہو کر گرنا ہے) بالاآخر) ان کاٹھکانہ دوزخ ہے، ٹھکانا پانے کی کیا ہی بری جگہ۔
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ....: مشرکین عام طور پر ہمیشہ تعداد اور قوت میں زیادہ رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہی حال تھا کہ مسلمان کمزور تھے، ان سے خوف زدہ رہتے تھے، تو ایسے حالات میں ان کے لیے خلافت کا وعدہ عجیب اور ناممکن سی بات نظر آتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کافروں کے متعلق یہ گمان ہر گز نہ کریں کہ وہ اللہ کو مقابلے میں عاجز کر دیں گے، یہ لوگ جتنی تعداد اور قوت میں ہوں، جتنی چال بازیاں اور فوجیں اکٹھی کر لیں، مقابلہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ کسی صورت مقابلے میں عاجز نہیں کر سکتے۔ کعب رضی اللہ عنہ کا شعر ہے: هَمَّتْ سَخِيْنَةُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّهَا فَلَيُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ ’’سخینہ (قریش) نے ارادہ کیا کہ اپنے رب سے مقابلے میں غالب آئیں، مگر اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا تو ہر صورت مغلوب ہی ہو گا۔ ‘‘ [ مستدرک حاکم : ۳؍۴۸۸، ح : ۶۰۶۵ حاکم، ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے] یہ حال تو دنیا میں ہو گا اور آخری مقام ان کا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کے لیے بہت بری جگہ ہے۔