سورة النور - آیت 27

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں اس وقت تک قدم نہ رکھو، جب تک حال معلوم نہ کرلو (یعنی اجازت نہ لے لو) اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو۔ اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور یہ اس لیے کہ تم غفلت میں نہ پڑو (١٥)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا....: سورت کے شروع سے زنا اور بہتان کی حد اور ان کی مذمت کا بیان آ رہا ہے، اب ان احکام کا ذکر شروع ہوتا ہے جن سے مردوں اور عورتوں کے ایسے میل جول کی روک تھام ہوتی ہے جو زنا اور بہتان کا سبب بنتا ہے۔ ان احکام میں گھروں میں داخلے کی اجازت، نظر کی حفاظت، پردے اور نکاح کی تاکید اور قحبہ گری سے ممانعت جیسے آداب شامل ہیں۔ غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : یعنی صرف اپنے گھروں میں داخلے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں، جہاں آدمی اکیلا رہتا ہو، یا بیوی کے ساتھ رہتا ہو۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ وہاں داخلے سے پہلے بھی کسی طرح گھر والوں کو اپنی آمد سے آگاہ کر دیا جائے، ممکن ہے وہ ایسی حالت میں ہوں جس میں خاوند کا دیکھنا انھیں پسند نہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب بیان کرتی ہیں: ((كَانَ عَبْدُ اللّٰهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهٰی إِلَی الْبَابِ تَنَحْنَحَ وَ بَزَقَ كَرَاهَةَ أَنْ يَّهْجُمَ مِنَّا عَلٰی أَمْرٍ يَكْرَهُهُ )) [ ابن جریر : ۲۶۱۳۱ ] ’’عبد اللہ (رضی اللہ عنہ ) جب کسی کام سے فارغ ہو کر گھر آتے تو دروازے پر آ کر کھانستے اور تھوکتے کہ کہیں ان کی نظر ہماری کسی ایسی چیز پر نہ پڑ جائے جو انھیں نا پسند ہو۔‘‘ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا أَطَالَ أَحَدُكُمُ الْغَيْبَةَ فَلَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا )) [ بخاري، النکاح، باب لا یطرق أھلہ.....: ۵۲۴۴ ] ’’جب تم میں سے کوئی شخص زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہے تو گھر والوں کے پاس رات کے وقت نہ آئے۔‘‘ مسلم میں یہ الفاظ زائد ہیں: ((نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَنْ يَّطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب کراھیۃ الطروق....:184؍715، قبل ح : ۱۹۲۹ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زیادہ عرصہ گھر سے غائب رہنے والے شخص کو) منع فرمایا کہ وہ گھر والوں کی خیانت یا ان کی غلطی کی تلاش کے لیے رات کو (اچانک) ان کے پاس آئے۔‘‘ 3۔ ’’ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’یہاں تک کہ تم انس حاصل کر لو۔‘‘ اس لیے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کر لو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمھارا آنا ناگوار تو نہیں ہے؟ 4۔ اجازت مانگنے کا طریقہ، بنو عامر کا ایک آدمی آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، کہنے لگا : ’’کیا میں اندر آ جاؤں؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے کہا : ’’اس کے پاس جاؤ اور اسے اجازت مانگنے کا طریقہ سکھاؤ کہ وہ اس طرح کہے: ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟ )) ’’السلام علیکم، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا : ((اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ؟)) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور وہ داخل ہو گیا۔‘‘ [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۷ ] کَلَدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کے پاس سیدھا چلا آیا، میں نے نہ سلام کہا ( اور نہ اجازت مانگی)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِرْجِعْ فَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان؟ : ۵۱۷۶، صححہ الألباني ] ’’واپس جاؤ اور کہو السلام علیکم۔‘‘ 5۔ اجازت زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ مانگے، اگر اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ [ دیکھیے بخاري، الاستئذان، باب التسلیم و الاستئذان ثلاثا : ۶۲۴۵، عن أبي موسٰی رضی اللّٰہ عنہ ] 6۔ دروازہ کھٹکھٹانے یا سلام کہنے پر اگر گھر والے پوچھیں، کون ہے تو اپنا نام بتائے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں حاضر ہوا، جو میرے والد کے ذمے تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ((مَنْ ذَا؟ فَقُلْتُ أَنَا، فَقَالَ أَنَا أَنَا )) ’’کون ہے؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں، میں۔‘‘ گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ [ بخاري، الاستئذان، باب إذا قال من ذا؟ فقال أنا : ۶۲۵۰ ] 7۔ ہزیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((هٰكَذَا عَنْكَ أَوْ هٰكَذَا، فَإِنَّمَا الْاِسْتِئْذَانُ مِنَ النَّظَرِ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب کیف الاستئذان ؟ : ۵۱۷۴، صححہ الألباني ] ’’اس طرف ہو جاؤ یا اس طرف، کیونکہ دیکھنے ہی کی وجہ سے اجازت مانگی جاتی ہے۔‘‘ 8۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوِ اطَّلَعَ فِيْ بَيْتِكَ أَحَدٌ وَ لَمْ تَأْذَنْ لَهُ خَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ مَا كَانَ عَلَيْكَ مِنْ جُنَاحٍ )) [ بخاري، الدیات، باب من أخذ حقہ....: ۶۸۸۸ ] ’’اگر کوئی آدمی تیرے گھر میں جھانکے، جبکہ تو نے اجازت نہ دی ہو اور تو کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا۔‘‘ ایسی صورت میں آنکھ پھوڑنے پر نہ قصاص ہے، نہ دیت۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ....: یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے، اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر) ’’ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو کہ جس طرح تمھیں دوسروں کا بلااجازت آ گھسنا برا محسوس ہوتا ہے، اسی طرح دوسروں کو تمھارا بلااجازت در آنا بھی برا محسوس ہوتا ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اجازت مانگنے کے حکم پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ (الا ما شاء اللہ) رشتہ داروں، ہمسایوں بلکہ اجنبیوں تک کے گھروں میں آنے جانے کے لیے اجازت کی ضرورت ہی نہیں رہی، اس پر مزید عام بے پردگی اور بے لباسی سے بدتر لباس ہے، جس سے مسلم معاشرے میں بے حیائی کا سیلاب آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدکاری، بدگمانی، تہمت تراشی، رقابت، قتل و غارت اور دوسری برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حدود اور اپنے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )