لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب کے بعد اب خاص طور پر کچھ لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو سب سے زیادہ مدد اور مالی تعاون کے حق دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں اور یہ ساری صفات اصحابِ صفہ میں پائی جاتی تھیں، اس لیے اس آیت کے سب سے پہلے مصداق وہی ہیں، پھر قیامت تک جو لوگ بھی ان صفات کے حامل ہوں گے وہ سب سے زیادہ مالی تعاون کے حق دار ہوں گے، اب آپ وہ صفات ملاحظہ فرمائیں: (1) ”لِلْفُقَرَآءِ“ یہاں ان کے فقر کا سبب بیان نہیں فرمایا، سورۂ حشر میں بیان فرمایا ہے:﴿لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ ﴾ [الحشر:۸ ] ’’(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔‘‘ اب وہ خالی ہاتھ تھے، نہ ان کے پاس مال تھا نہ گھر۔ ان کے لیے مسجد نبوی میں ایک صفہ بنادیا گیا۔ ان کی تعداد چار سو تھی جو غزوات اور مہموں پر بھیجنے کی وجہ سے کم زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ (2) ”الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ“ احصار لغت میں یہ ہے کہ آدمی جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش آ جائے، مثلاً کوئی بیماری، بڑھاپا، خرچ نہ ہونا یا کوئی دشمن وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں روکے گئے ہیں، یعنی جہاد اور طلب علم نے انھیں کمائی کرنے سے روک دیا ہے، وہ منتظر بیٹھے ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ جہاد کے لیے نکلیں۔ یہ لوگ اللہ کی خاطر گھر سے نکلے، اللہ کی خاطر مال مویشی چھوڑ کر فقر اختیار کیا اور اب اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں وقف کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی جو مجاہد یا دین کے طالب علم کاروبار یا ملازمت کے بجائے اپنے آپ کو جہاد اور دینی علوم کے حصول کے لیے روکے ہوئے ہیں، ان پر خرچ کرنا اولین فریضہ ہے۔ (3) ”لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ“ یعنی جہاد اور طلب علم کی وجہ سے وہ سفر نہیں کر سکتے۔ (4) ”يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ“ یعنی ان کی بے نیازی، عزتِ نفس اور سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غنی ہیں۔ بندہ(عبد السلام) عرض کرتا ہے کہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم رحمہ اللہ نے مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا واقعہ سنایا کہ وہ ان دنوں فیروز پور کے ایک گاؤں ’’لکھوکی ‘‘ میں پڑھتے تھے، والد فوت ہو چکے تھے، گھر میں غربت تھی اور سردی کے موسم میں قمیص بھی نہیں تھی۔ فرماتے تھے کہ میں نے وہ چھ ماہ قمیص کے بغیر دوہر (دوہرا کھیس) لپیٹ کر گزار دیے، کسی کو پتا تک نہیں چلنے دیا کہ میرے پاس قمیص نہیں، پھر والدہ نے روئی وغیرہ کی چنائی سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھیجی تو انھوں نے قمیص بنائی۔ [اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ ] (5) ”تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمٰىهُم“ تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے کمزوری اور چہرے کی زردی سے تم ان کا فقر پہچان لو گے، مگر یہ معنی ہو تو یہ تو ناواقف بھی پہچان لیتا ہے، اس لیے اس کا مطلب چہرے کا نور اور وہ رونق ہے جو ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ان کے چہرے پر نمایاں تھی، جیسا کہ فرمایا:﴿سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ﴾ [الفتح:۳۹ ] ’’ان کی شناخت ان کے چہروں میں ( موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔‘‘ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے کی ایک خاص رونق سے پہچانے جاتے تھے۔ دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر۔ (6) ”لَا يَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا“ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ بظاہر اس کا معنی یہ ہے کہ وہ سوال تو کرتے ہیں مگر لوگوں سے لپٹ کر نہیں، مگر یہ معنی درست نہیں، کیونکہ اگر یہ معنی ہو تو پچھلے دونوں جملے بے مقصد ٹھہرتے ہیں، کیونکہ جب سوال کر لیا تو تعفف (سوال سے بچنا) کہاں رہا اور پھر پہچان کے لیے چہرے کی علامت پر غور کی کیا ضرورت ہے، فقر کا اظہار تو ان کے سوال ہی سے ہو گیا، اس لیے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ نہ وہ لوگوں سے سوال کرتے ہیں نہ لپٹتے ہیں۔ یہاں ”لَا“ صرف ”يَسْئَلُوْنَ“ پر نہیں بلکہ ”اِلْحَافًا“ پر بھی ہے۔ دراصل یہ بھکاریوں کی عادت کی مذمت ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں، مگر ہمارے یہ فقراء ایسا نہیں کرتے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے میرا باپ نامی گرامی چور نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چور تو تھا مگر نامی گرامی نہیں، بلکہ وہ دوسرے آدمی کو تعریض کر رہا ہے کہ تمہارا باپ ایسا تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلاَ اللَّعَّانِ )) ’’مومن بہت طعن کرنے والا اور بہت لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ [ترمذی، البروالصلۃ، باب ما جاء فی اللعنۃ:۱۹۷۷، عن عبد اللہ رضی اللّٰہ عنہ و صححہ الألبانی ] اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ تھوڑا طعن اور تھوڑی لعنت کر لیتا ہے، نہیں بلکہ تعریض ہے کہ کافر ایسا ہوتا ہے مومن نہیں۔ اس کی دلیل ایک اور حدیث سے ملاحظہ فرمائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسکین وہ نہیں جو لوگوں پر چکر لگاتا رہتا ہے، اسے ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں دے دی جاتی ہیں تو آگے چل پڑتا ہے، لیکن مسکین وہ ہے جو نہ تو اتنا مال رکھتا ہے جو اسے غنی کر دے اور نہ اس کا پتا چلتا ہے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرتا ہے۔‘‘ [بخاری، الزکاۃ، باب قول اللہ عزوجل:﴿ للفقراء الذین احصروا.... ﴾:۱۴۷۹، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کی بہت مذمت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہو گی۔‘‘ [بخاری، الزکوٰۃ، باب من سأل الناس تکثرًا:۱۴۷۴، عن ابن عمررضی اللّٰہ عنہما ] عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے خاص طور پر اس بات کی بیعت لی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے اور پانچ نمازیں پڑھیں گے اور اطاعت کریں گے اور ایک خفیہ بات چھپا کر کہی کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال مت کرنا۔ عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’پھر میں نے ان آدمیوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا گر پڑتا تو وہ کسی سے سوال نہ کرتا کہ اسے پکڑا دے۔‘‘ [مسلم، الزکٰوۃ، باب کراھۃ مسئلۃ الناس:۱۰۴۳ ] البتہ مجبوری کی بات الگ ہے کہ مجبوری میں تو خنزیر کھانے کی بھی اجازت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں کے لیے سوال کی اجازت دی ہے، ایک وہ جس نے (کسی دیت کی ادائیگی یا کسی کا تاوان اٹھانے کی) کوئی ضمانت اٹھائی ہو، دوسرا وہ آدمی جسے فاقہ پہنچے اور اس کی قوم کے تین عقل مند آدمی اسے فاقہ پہنچنے کی شہادت دیں، تیسرا وہ آدمی جسے کوئی آفت پہنچے جو اس کا سارا مال برباد کر دے۔ ان تینوں کو ضرورت پوری ہونے تک سوال کی اجازت ہے، ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنا چھوڑ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے قبیصہ! ان کے سوا جو سوال بھی ہے حرام ہے، سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔‘‘ [مسلم، الزکاۃ، باب من تحل لہ المسئلۃ:۱۰۴۴، عن قبیصۃ بن مخارق رضی اللّٰہ عنہ ]