لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
(اے پیغمبر) تم پر کچھ اس بات کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ ہدایت قبول ہی کرلیں (تمہاری کام) صرف راہ دکھا دینا ہے، یہ کام اللہ کا ہے کہ جسے چاہے راہ پر لگا دے (پس تم لوگوں سے کہہ دو) جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو (اس کا فائدہ کچھ مجے نہیں مال جائے گا، اور نہ کسی دوسرے پر اس کا احسان ہوگا) خود اپنے ہی فائدہ کے لیے کروگے۔ اور تمہارا خرچ کرنا اسی غرض کے لیے ہے کہ اللہ کی رضا جوئی کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ) جو کچھ تم خیرات کرو گے تو (خدا کا قانون یہ ہے کہ) اس کا بدلہ پوری طرح تمہیں دے دے گا، تمہاری حق تلفی نہ ہوگی
1۔ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدٰىهُمْ:اس آیت سے پہلے اور بعد میں صدقے کے مسائل و فضائل بیان ہو رہے ہیں، درمیان میں یہ کہنا کہ ’’تیرے ذمے ان کی ہدایت نہیں ‘‘ کیا مناسبت رکھتا ہے؟ اکثر مفسرین نے تو ”هُدٰىهُمْ“ سے مراد کفار کی ہدایت لی ہے اور اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ رشتے دار یا ضرورت مند اگر کافر ہے تو اس پر بھی صدقہ کرو، کافر ہونے کی وجہ سے صدقے سے ہاتھ نہ روکو، کیونکہ ان (کفار) کی ہدایت تمہارے ذمے نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کو تھوڑی سی چیز دینا بھی ناپسند کرتے تھے، پھر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور یہ آیت اتری:﴿ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ ﴾ [السنن الکبرٰی للنسائی، التفسیر، باب قولہ:﴿ لیس علیک ھداھم ﴾:10؍37، ح:۱۰۹۸۶ ] صلح حدیبیہ کی مدت میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی والدہ، جو مشرکہ تھی، ان کے پاس آئی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’میری والدہ آئی ہے، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔‘‘ [بخاری، الأدب، باب صلۃ المرأۃ أمھا....: ۵۹۷۹ ] اسلام کی رحمت عام کو دیکھیے کہ مشرک پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے، بشرطیکہ وہ حالت جنگ میں نہ ہو، بلکہ کسی جانور پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے، جیسا کہ پیاسے کتے کو پانی پلانے والے شخص کی اس عمل کی وجہ سے بخشش ہو گئی۔ صحابہ نے پوچھا:’’کیا جانوروں کے بارے میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟‘‘ فرمایا:’’جو بھی تر جگر والا (جاندار) ہے اس میں اجر ہے۔‘‘ [بخاری، الأدب، باب رحمۃ الناس و البہائم:۶۰۰۹] لیکن یاد رہے کہ کفار پر صرف نفل صدقہ جائز ہے، فرض زکوٰۃ نہیں، اس پر امت کا اجماع ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ مسلمانوں کے اغنیاء سے لی جاتی ہے اور انھی کے فقراء پر لوٹائی جاتی ہے۔‘‘ [بخاری، الزکوٰۃ، باب وجوب الزکٰوۃ:۱۳۹۵ ] صدقہ فطر چونکہ فرض ہے اس لیے اس کا بھی یہی حکم ہے۔ بعض مفسرین نے ’’ هُدٰىهُمْ ‘‘ سے مراد وہ مسلمان لیے ہیں جن کی ہدایت میں خامی ہے اور جن کا تذکرہ پچھلی آیات میں آیا ہے، یعنی ریا سے صدقہ کرنے والے، صدقہ کرکے تکلیف دینے والے، یا احسان رکھنے والے، یا نکمّی چیز خرچ کرنے والے۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان لوگوں کا رویہ دیکھ کر تنگ دل نہ ہوں، انھیں ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ 2۔ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ:یعنی مسلمانوں پر خرچ کرو یا کفار پر، جس مال یا وقت یا اثر و رسوخ یا علم سے کسی کو فائدہ پہنچاؤ اس کا فائدہ تمھی کو ہے، یعنی دنیا میں سعادت و برکت اور آخرت میں ثواب اور دخول جنت۔ 3۔ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ:عام طور پر اس کا ترجمہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیا جاتا ہے، مگر جو لطف ’’اللہ کا چہرہ طلب کرنے کے لیے‘‘ میں ہے وہ دوسرے لفظ میں کبھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ’’وَجْهِ ‘‘ کا اصل معنی چہرہ ہے اور حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی خرابی بھی نہیں، کیونکہ مومن کی سب سے بڑی طلب اور تمنا اللہ تعالیٰ کے چہرے کا دیدار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرمائے۔ (آمین) یہاں لفظ اگرچہ نفی کے ہیں مگر مراد نہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طلب کے سوا خرچ مت کرو۔