ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
پھر (دیکھو) ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیاں اور آشکارا دلیلیں دیں۔
1۔ ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ ....: ’’ثُمَّ‘‘ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پیغمبروں کے لمبے وقفے کے بعد مبعوث ہوئے۔ فرعون اور اس کی قوم اپنے زمانے کے نہایت قوت و شوکت اور مال و دولت والے لوگ تھے، انھوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا، چنانچہ ان کی طرف رسول بھی نہایت عظیم الشان بھیجا گیا، جس کے حالات اور معجزات قرآن میں سب سے زیادہ بیان ہوئے ہیں اور اس مقام پر نوح علیہ السلام کے بعد ذکر کردہ پیغمبروں اور امتوں کی طرح مبہم رکھنے کے بجائے موسیٰ و ہارون( علیھما السلام ) کا اور فرعون اور اس کے سرداروں کا نام لیا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل تھی، جب کہ فرعون اور اس کی قوم قبطی تھے۔ اس لیے یہ کہنے کے بجائے کہ ہم نے موسیٰ کو ان کی قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا، یہ فرمایا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ فرعون کی قوم کا نام نہیں لیا، کیونکہ وہ فرعون اور اس کے سرداروں کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ فرعون کی طرف بھیجنے کا مقصد اسے توحید کی دعوت دینا (دیکھیے نازعات : ۱۵ تا ۱۹) اور بنی اسرائیل کو آزادی دلانا تھا۔ ( دیکھیے طٰہٰ : ۴۷) 2۔ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : نشانیوں سے مراد وہ معجزات اور نشانیاں ہیں جو فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ظاہر ہوئیں، جن کا ذکر سورۂ اعراف اور دوسرے مقامات پر ہے۔ ان میں سمندر کا پھٹنا، من و سلویٰ اترنا، بارہ چشمے جاری ہونا اور بادل کا سایہ وغیرہ شامل نہیں، کیونکہ ان کا فرعون کو دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ بھی اگرچہ آیات میں شامل ہے، مگر اس کی عظمت کی وجہ سے اسے الگ ذکر فرمایا۔ اکثر مفسرین نے اگرچہ اس سے عصائے موسیٰ مراد لیا ہے، مگر مجھے ان مفسرین کی بات راجح معلوم ہوتی ہے جنھوں نے فرمایا : ’’اس سے مراد وہ غلبہ اور سطوت و ہیبت ہے جو موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو عطا ہوئی تھی۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ﴾ [ القصص : ۳۵ ] ’’اور ہم تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کے حصول کی دعا سکھائی، فرمایا : ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۰ ] ’’اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔‘‘ زیر تفسیر آیت میں بھی ’’ سُلْطٰنٍ ‘‘ سے مراد غلبہ ہے۔ غور کیجیے فرعون کس قدر متکبر اور ظالم تھا، کتنے لوگوں کو اس نے قتل کیا ہو گا۔ اس کے دروازے پر کتنا سخت پہرا ہو گا۔ دو آدمی جو ہاتھ میں صرف عصا لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس جاتے ہیں، کسی کو روکنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بات شروع ہوتی ہے تو وہ ہر بات میں لاجواب ہوتا ہے۔ لاجواب ہو کر جیل کی دھمکی دیتا ہے، مگر دھمکی پر عمل کی ہمت نہیں ہوتی، جادوگروں سے مقابلہ کرواتا ہے، ناکام ہوتا ہے۔ (شعراء : ۱۸ تا ۲۸) پھر قتل کرنا چاہتا ہے مگر جرأت نہیں ہوتی۔ (مؤمن : ۲۶) اللہ بہتر جانتا ہے کتنے سال اسی طرح گزرے، مگر وہ موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکا، اسے کہتے ہیں ’’ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ یعنی واضح غلبہ۔