سورة المؤمنون - آیت 37

إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(بھلا دوبارہ زندہ ہونا کیسا؟) زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں، یہیں مرتے ہیں، یہی جینا ہے، ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنْ هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا : ’’ هِيَ ‘‘ سے مراد ’’حَيَاةٌ‘‘ ہے، جو ’’ حَيَاتُنَا ‘‘ سے واضح ہو رہی ہے، یعنی مرنے کے بعد زندگی کہاں؟ زندگی ہے تو صرف یہ دنیا کی زندگی، باقی سب خیال و محال ہے۔ نَمُوْتُ وَ نَحْيَا : ’’ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل ہو گئے تھے، کیونکہ وہ اس دنیا کے سوا کسی زندگی کو مانتے ہی نہ تھے۔ اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہیں ہم مرتے جاتے ہیں اور پچھلے پیدا ہوتے رہتے ہیں، دنیا کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا ہے اور جاری رہے گا۔ وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ : باء کی وجہ سے نفی میں تاکید پیدا ہو گئی، اس لیے ترجمہ ہے ’’اور ہم ہر گز اٹھائے جانے والے نہیں۔‘‘ اگرچہ ان سرداروں کی پچھلی تمام باتوں کا مطلب بھی رسول اور قیامت کو جھٹلانا تھا، پھر بھی کوئی کمی باقی تھی تو انھوں نے نہایت تاکید کے ساتھ صاف لفظوں میں قیامت کا انکار کرکے اور رسول کو مفتری کہہ کر پوری کر دی، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔