لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے، وہی ہے جو بے نیاز ہے ہر طرح کی ستائشوں کا سزاوار۔
1۔ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ : یہ دوسری دلیل ہے، یعنی وہ صرف آسمان سے بارش برسانے اور زمین سے سبزہ اگانے ہی کا مالک نہیں بلکہ آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا وہ اکیلا مالک ہے، بارش برسانا اور سبزہ اگانا تو اس کے اختیار کا معمولی سا حصہ ہے۔ ’’ لَهٗ ‘‘ کو پہلے لانے سے قصر کا مفہوم پیدا ہوا۔ تو جب ہر چیز کا مالک وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں ہو؟ 2۔ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ : یہ عام مشاہدہ ہے کہ انسان جن چیزوں کا مالک ہوتا ہے ان کا محتاج بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہونے کے ذکر کے ساتھ وضاحت فرمائی کہ وہ آسمان و زمین اور ان میں موجود کسی چیز کا محتاج نہیں، بلکہ سب سے بے پروا اور غنی ہے، حتیٰ کہ حمد کرنے والوں کی حمد سے بھی غنی ہے۔ اس وصف کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ حمید یعنی تمام تعریفوں والا ہے، ہر حمد اور تعریف خواہ کسی کی ہو، دراصل وہ اس اکیلے ہی کی ہے، کیونکہ مخلوق میں تعریف کے لائق جو خوبی بھی ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ جب سب اسی کے محتاج ہیں تو پھر مخلوق کی عبادت کیوں ہو جو خود اپنے وجود میں بھی اس کی محتاج ہے۔ 3۔ ’’ اِنَّ ‘‘کے اسم’’ اللّٰهَ‘‘ اور اس کی خبر ’’ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ‘‘ کے درمیان ضمیر فصل ’’ هُوَ ‘‘ لانے سے اور ’’ اِنَّ ‘‘ کی خبر ’’ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ‘‘ پر الف لام لانے سے کلام میں دو وجہوں سے حصر پیدا ہو گیا، جس سے ترجمہ یہ ہو گا کہ بلاشبہ اللہ ہی یقیناً بڑا بے پروا، تمام تعریفوں والا ہے۔