سورة الحج - آیت 45

فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر دیکھو، کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور وہ ظلم کرنے والی تھیں، وہ ایسی اجڑیں کہ اپنی چھتوں پر گر کے رہ گئیں، کنویں ناکارہ ہوگئے، سربہ فلک محل کھنڈر بن گئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِيَ ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۹) کی تفسیر۔ ’’ بِئْرٍ ‘‘ مؤنث سماعی ہے، اس لیے اس کی صفت ’’ مُعَطَّلَةٍ ‘‘ آئی ہے۔ ’’ مَشِيْدٍ ‘‘ ’’شَادَ يَشِيْدُ شَيْدًا‘‘ (ض) سے اسم مفعول ہے، چونے کے ساتھ مضبوط کیا ہوا۔ یہ مجرد ثلاثی سے ہے، جب کہ سورۂ نساء کی آیت (۷۸) : ﴿ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ﴾ میں باب تفعیل یعنی ثلاثی مزیدفیہ استعمال ہوا ہے جس میں مبالغہ ہوتا ہے، کیونکہ وہاں موت کا ذکر ہے کہ خواہ تم چونے کے ساتھ بنے ہوئے محکم سے محکم قلعوں میں ہو موت تمھیں وہاں بھی نہیں چھوڑے گی۔ موت کی دسترس کے اظہار کے لیے ’’ مُشَيَّدَةٍ ‘‘(باب تفعیل) لایا گیا، جب کہ پرانے محلات خواہ کس قدر مضبوط ہوں آخر وہ پختگی باقی نہیں رہتی، اس لیے صرف ’’ مَشِيْدٍ‘‘ (ثلاثی مجرد) پر اکتفا کیا گیا۔ ’’ مَشِيْدٍ ‘‘ کا ایک معنی بلند بھی ہے۔ 2۔ یہ سات اقوام جن کا ذکر ہوا ہے، کثرت و قوت میں تمام اقوام سے بڑھ کر تھیں۔ ان کے علاوہ ان کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طرح کی کتنی قومیں گزری ہیں؟ ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت بیان فرمائی کہ پہلے انھیں مہلت دی جاتی ہے، پھر اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ایمان لے آئیں تو خیر، ورنہ انھیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ترتیب کے مطابق پہلے مہلت کا اور پھر پکڑنے کا ذکر ہونا چاہیے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے ایسی اقوام کی کثرت، ان کی قوت و شوکت اور ان کی تباہی و بربادی کی یاد دلانے والے آثار قدیمہ کا بیان پہلے فرمایا اور آیت (۴۶) میں دوبارہ انھیں مہلت دینے کے بعد پکڑنے کا ذکر فرمایا۔ سو ارشاد فرمایا کہ کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ان کے ظلم اور کفر انِ نعمت کی پاداش میں ہم نے ہلاکت اور تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ ان کی چھتیں بوسیدہ ہو کر گرنے کے بعد ان کی دیواریں بھی ان پر گری پڑی ہیں اور کتنے ہی کنویں ہیں جو کبھی آبادی کا مرکز تھے اور ان پر پانی کے لیے آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، اب اجاڑ اور ویران پڑے ہیں۔ عربوں کے ہاں پانی کی قلت کی وجہ سے کنوؤں کا خصوصاً ذکر فرمایا۔ اسی طرح کتنے ہی چونے کے ساتھ مضبوط بنے ہوئے بلند و بالا اور پر شکوہ ایوان اور محلات ہیں، جن میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی اور جن کی حفاظت کے لیے دن رات ہزاروں فوجیوں کا پہرا ہوتا تھا، اب ان پر کوؤں، چیلوں اور الوؤں کی حکومت ہے۔