سورة الحج - آیت 42

وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) اگر یہ (منکر) تجھے جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) ان سے پہلے کتنی ہی قومیں اپنے اپنے وقتوں کے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ....: آیت کے شروع میں ’’واؤ‘‘ کا عطف ایک محذوف جملے پر ہے اور وہ محذوف جملہ اور یہ مذکور جملہ دونوں ترغیب و ترہیب پر مشتمل پچھلی آیات کا حاصل بیان کر رہے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے : ’’ فَاِنْ آمِنُوْا بِكَ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ وَ إِنْ يُّكَذِّبُوْكَ أَخَذْتُهُمْ‘‘ ’’پس اگر وہ (یہ سب کچھ سن کر) تجھ پر ایمان لے آئیں تو ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں گے اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو میں انھیں پکڑ لوں گا۔‘‘ پہلا جملہ سننے والے کی سمجھ کے سپرد کرکے حذف کر دیا ہے اور’’ وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ ‘‘ کا اس پر عطف ڈالا ہے۔ (بقاعی) قرآن مجید میں بعض مقامات پر اس حذف شدہ جملے جیسے جملے مذکور بھی ہیں، مثلاً : ﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ﴾ [ البقرۃ : ۱۳۷ ] ’’پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ﴾ [ آل عمران : ۲۰ ] ’’پس اگر وہ تابع ہو جائیں تو بے شک ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے ۔‘‘اور فرمایا : ﴿ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ﴾ [ النور : ۵۴ ] ’’کہہ دے اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، پھر اگر تم پھر جاؤ تو اس کے ذمے صرف وہ ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے اور تمھارے ذمے وہ جو تم پر بوجھ ڈالا گیا اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے۔‘‘ ’’ وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ ....‘‘ یہ جملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے اور ان کا غم دور کرنے کے لیے فرمایا ہے، یعنی اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو میں انھیں پکڑ لوں گا، خواہ وہ کتنی قوت رکھتے ہوں، میں نے ان سے پہلے عمر، قد و قامت، قوت و شوکت، مال و متاع، خبث و نجاست اور حکومت و اقتدار میں ان سے کہیں بڑھی ہوئی قوموں کو، جب وہ باز نہ آئے تو پکڑ لیا اور وہ میری گرفت سے بچ نہ سکے، تو مکہ کے ان کافروں کی کیا بساط ہے؟ اس لیے آپ غم زدہ نہ ہوں۔ آپ سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم نے جھٹلایا، جن کی عمریں سب لوگوں سے زیادہ اور جن کا اقتدار نہایت مضبوط تھا اور عاد نے جو بہت لمبے اور نہایت مضبوط قد رکھتے تھے، جن کے بعد ان جیسی قوم پیدا نہیں ہوئی اور ثمود، جنھوں نے میدانوں میں اور پہاڑوں میں چٹانیں تراش کر نہایت مضبوط اور بلند و بالا عمارتیں بنا رکھی تھیں اور ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو جو جبر و تکبر میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور لوط علیہ السلام کی خبیث اور نجس قوم کو اور مدین والوں کو جنھوں نے حرام طریقے سے کمائے ہوئے مال کے خزانے جمع کر رکھے تھے۔ وَ كُذِّبَ مُوْسٰى: موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ سب لوگوں کو نظر آنے والے اتنے معجزے عطا کیے گئے جو اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے تھے، اس لیے ان کی تکذیب انتہائی بعید بات تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے کلام کا اسلوب بدل دیا اور اس لیے بھی بدل دیا کہ پہلے ذکر کر دہ تمام انبیاء کی اقوام نے انھیں جھٹلایا تھا جب کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل نے انھیں چند ایک کے سوا نہیں جھٹلایا، صرف فرعون کی قوم قبطیوں نے انھیں جھٹلایا تھا۔ رہی بنی اسرائیل کی نافرمانیاں تو وہ موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا سمجھنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس قوم کی بدعملی اور طبیعت کی خست کی وجہ سے تھیں۔ فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ : اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو دلاسا اور تسلی دی ہے کہ میں نے مکہ کے کفار کو بھی اسی طرح مہلت دی ہے، اب جنگ کی اجازت ہے، اگر یہ ایمان لے آئیں تو خیر، ورنہ ان پر بھی میری پکڑ مہاجرین و انصار کی یلغار کی صورت میں تیار ہے۔ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ: ’’ نَكِيْرِ ‘‘ کی ’’راء‘‘ کے نیچے کسرہ ہے، کیونکہ اصل میں ’’ نَكِيْرِيْ‘‘ تھا، میرا عذاب۔ ’’یاء‘‘ کو تخفیف کے لیے اور فواصل یعنی آیات کے آخری الفاظ (مثلاً كَفُوْرٍ ، عَزِيْزٌ ، الْاُمُوْرِ ، مَشِيْدٍ ، الصُّدُوْرِ وغیرہ) کی موافقت کے لیے حذف کر دیا گیا۔ ان پر آنے والے عذابوں کی تفصیل سورۂ عنکبوت میں ہے، فرمایا : ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ﴾ [ العنکبوت : ۴۰ ] ’’تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اوران میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔‘‘