سورة الحج - آیت 38

إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ ایمان لائے ہیں یقینا اللہ (ظالموں کے تشدد سے ے) ان کی مدافعت کرتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو کہ کفران نعمت کر رہے ہیں کبھی پسند نہیں کرسکتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: پچھلی آیات کے ساتھ اس مضمون کا تعلق یہ ہے کہ اس سورت میں اس سے پہلے کفار کا اور ان کے لیے عذاب الیم کا ذکر ہوا ہے، جو اسلام اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس میں اللہ کی عبادت کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ پھر آیت (۱۹) ’’هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ‘‘ میں مشرکین اور موحدین کی کشمکش کا ذکر فرمایا ہے، اس کے بعد بیت اللہ کی تعمیر، حج کی ابتدا اور قربانی اور حج کے دوسرے اعمال کی فضیلت کا بیان ہوا ہے جس سے مہاجر مسلمانوں کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے، بیت اللہ کی زیارت اور اس کے عمرہ و حج کا شوق پیدا ہونا قدرتی تھا اور یہ خیال بھی کہ کافر کب تک ظلم کرتے رہیں گے اور مسلمانوں کو اللہ کے گھر سے روکتے رہیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اپنے آپ کو بے یار و مددگار مت سمجھیں، اللہ تعالیٰ ان کا دفاع کر رہا ہے اور کرے گا۔ بہت جلد مسلمانوں کو غلبہ عطا ہو گا اور کفار، جنھوں نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور انھیں ان کے وطن مکہ معظمہ سے ہجرت پر مجبور کیا، وہ مغلوب ہوں گے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ : ’’خَوَّانٍ ‘‘ ’’خَانَ يَخُوْنُ‘‘ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے اور ’’ كَفُوْرٍ ‘‘ ’’كَفَرَ يَكْفُرُ‘‘ سے اسم فاعل مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کے دفاع کی وجہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بے حد خیانت کرنے والا، بہت ناشکرا ہے، جبکہ کفار میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں۔ 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بے حد خیانت کرنے والا، بہت ناشکر ا ہو، تو کیا وہ عام خیانت کرنے والے اور عام ناشکرے کو پسند فرماتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی خیانت کرنے والے اور کسی بھی ناشکرے کو پسند نہیں کرتا، خواہ وہ صرف خائن و کافر ہو یا خوان و کفور ہو، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَآىِٕنِيْنَ﴾ [الأنفال : ۵۸ ] ’’بے شک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ ﴾ [ آل عمران : ۳۲ ] ’’بے شک اللہ کفر کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ یہاں مبالغے کے صیغے لانے کے دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار مکہ کا حال بیان کرنا مقصود ہے کہ انھیں بیت اللہ کی تولیت کی امانت اور حرم میں سکونت کی نعمت عطا کی گئی مگر انھوں نے شرک و کفر پر اصرار کرکے اور مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھا کر، انھیں خانہ بدر کرکے اور آئندہ حج و عمرہ، نماز و طواف اور دوسری عبادات کے لیے اللہ کے گھر میں آنے سے روک دیا۔ یہ امانت میں حد سے بڑھی ہوئی خیانت اور نعمت کی بہت بڑی ناشکری ہے۔ یاد رہے کہ ’’ خَوَّانٍ ‘‘ میں ’’ كَفُوْرٍ‘‘ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ ’’خَؤُوْنٌ‘‘ کے بجائے ’’ خَوَّانٍ ‘‘ اس لیے لایا گیا ہے کہ کفر اور دوسرے نقائص کی اصل بھی خیانت ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان میں پائے جانے والے نقائص مبالغہ سے خالی ہوں۔ خیانت ہی کو لے لیجیے! آدمی جب کسی کی خیانت کی نیت کرتا ہے، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو درحقیقت وہ پہلے اپنی جان کی خیانت کرتا ہے، پھر لوگوں کی اور رب تعالیٰ کی بھی، کفر کا بھی یہی حال ہے۔