سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یاد رکھو ! اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقوی ہے (یعنی تمہارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار رہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آواز بلند کرو، اور نیک کرداروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا ....: یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ قربانیوں کے گوشت پہنچیں گے، جو کھا لیے گئے اور نہ ان کے خون، جو بہا دیے گئے۔ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے غنی ہے، اس کے پاس تو تقویٰ یعنی تمھارے دل کا وہ خوف پہنچے گا جو اللہ کی ناراضگی سے بچاتا ہے، جو دل پر غالب ہو جاتا ہے تو آدمی اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتا اور ہر منع کردہ کام سے باز آ جاتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِكُمْ وَ أَمْوَالِكُمْ وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ )) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ....:34؍ 2564] ’’اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ اس آیت اور حدیث سے دل کے تقویٰ اور نیت کے اخلاص کی اہمیت ظاہر ہے، اس لیے قربانی خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، نہ دکھاوا مقصود ہو اور نہ شہرت، نہ فخر اور نہ یہ خیال کہ لوگ قربانی کرتے ہیں تو ہم بھی کریں۔ نیت کے بغیر عمل کا کچھ فائدہ نہیں۔ نیت خالص ہو تو بعض اوقات عمل کے بغیر ہی بلند مقامات تک پہنچا دیتی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : (( إِنَّ بِالْمَدِيْنَةِ اَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيْرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوْا مَعَكُمْ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! وَهُمْ بِالْمَدِيْنَةِ ؟ قَالَ وَهُمْ بِالْمَدِيْنَةِ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ )) [ بخاري، المغازی، باب : ۴۴۲۳ ]’’مدینہ میں کئی لوگ ہیں کہ تم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی وادی طے کی ہے مگر وہ تمھارے ساتھ رہے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مدینہ میں رہتے ہوئے؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں! مدینہ میں رہتے ہوئے، انھیں عذر نے روکے رکھا۔‘‘ نیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی زندگی جتنی بھی ہو محدود ہے، یعنی صرف چند سال، اگر اس میں نیک عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں اور برے عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ محدود عمل پر غیر محدود جزا نیت کی وجہ سے ہے کہ نیک کی نیت ہمیشہ نیکی کرتے رہنے کی اور بد کی نیت ہمیشہ بدی کرتے رہنے کی تھی۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۷، ۲۸)۔ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ : یہاں تاکید کے لیے قربانی کے جانوروں کو مسخر کرنے کا احسان دوبارہ یاد دلایا اور تکبیر یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ’’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ ‘‘ کہنا اللہ کو مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اونٹ کو اِشعار (کوہان کی ایک طرف زخم) کرتے ہوئے ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھتے تھے۔ [ الموطأ لإمام مالک : ۸۴۵] انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ’’بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ‘‘پڑھا اور اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا۔ [ بخاري، الأضاحي، باب التکبیر عند الذبح : ۵۵۶۵] ’’ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ ‘‘ کے لفظ عام ہونے کی وجہ سے چوپاؤں کو مسخر کرنے کی نعمت پر دوسرے اوقات میں بھی اللہ کی کبریائی بیان کرنی چاہیے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کے لیے روانہ ہوتے وقت اونٹ پر سوار ہوتے تو تین دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے، پھر ’’سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ‘‘ پڑھتے (آگے سفر کی مکمل دعا مذکور ہے)۔ [ مسلم، الحج، باب استحباب الذکر إذا رکب دابتہ....: ۱۳۴۲ ] وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ:’’ الْمُخْبِتِيْنَ ‘‘ کو بشارت دینے کے حکم کے بعد ’’ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ کو بشارت دینے کا حکم دیا۔ احسان کا تعلق ’’وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ‘‘ سے ہے۔ تقویٰ ہر وقت اللہ کے خوف سے اس کے احکام پر عمل اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔ احسان بھی یہی ہے کہ ہر وقت یہ بات دل و دماغ میں حاضر رکھے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حدیث جبریل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تفسیر فرمائی : (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ )) [ بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل....: ۵۰ ] ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقیناً تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ تواضع اور احسان کی صفات رکھنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں ہر خیر کی بشارت ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۱۲)، نساء (۱۲۵) اور لقمان (۲۲) اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) 4۔ مفسر بقاعی نے ’’ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ کی واؤ کا ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ دین کا مدار نذارت و بشارت دونوں پر ہے، اس مقام پر چونکہ حج اور اس کے اعمال قربانی وغیرہ کا ذکر ہے، جو بشارت سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں، اس لیے نذارت کو حذف کرکے واؤ عطف کے بعد بشارت کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ گویا اصل عبارت یوں تھی:’’ فَأَنْذِرْ أَيُّهَا الدَّاعِي ! الْمُسِيْئِيْنَ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ ’’سوائے دعوت دینے والے! برائی کرنے والوں کو ڈرا اور نیکی کرنے والوں کو خوش خبری سنا دے۔‘‘