سورة الحج - آیت 34

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ ٹھہرا دیا کہ ہمارے دیے ہوئے پالتو چار پائے ذبح کرے تو اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرلے۔ پس (یاد رکھو) تمہارا معبود وہی ایک معبود یگانہ ہے (اور جب اسکے سوا کوئی نہیں تو چاہیے کہ) اسی کے آگے فرماں برداری کا سر جھکا دو۔ اور (اے پیغمبر) عاجزی اور نیاز مندی کرنے والوں کو (کامرانی و سعادت کی) خوشخبری دے دو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا : ’’ مَنْسَكًا ‘‘ کے تین معنی ہو سکتے ہیں، عبادت، عبادت کی جگہ اور قربانی۔ یہاں آخری معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ آگے جانوروں پر اللہ کا نام لینے کا ذکر آ رہا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے بطور نیاز قربانی کرنا تمام آسمانی شریعتوں کے نظام عبادت کا لازمی جز رہا ہے۔ اسلام میں بھی یہ بطور عبادت مقرر کی گئی ہے، اس میں حاجی، غیر حاجی کی کوئی قید نہیں ہے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( ضَحَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صِفَاحِهِمَا يُسَمِّيْ وَيُكَبِّرُ فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهٖ)) [بخاري، الأضاحی، باب من ذبح الأضاحي بیدہ : ۵۵۵۸۔ مسلم : ۱۹۶۶ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کیے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں رکھا اور ’’ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ ‘‘ پڑھ کر ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔‘‘ یاد رہے مکہ میں حج یا عمرہ پر کی جانے والی قربانی کو ہدی اور دوسرے مقامات پر کی جانے والی قربانی کو اضحیہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ تفسیر ثنائی میں ہے : ’’قرآن مجید کے اس دعویٰ (کہ ہر قوم میں قربانی کا حکم ہے) کا ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندوؤں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی کہتے ہیں : ’’یگیہ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے اچھے ہرن اور پرند مارنا چاہیے۔ اگلے زمانے میں رشیوں نے یگیہ کے لیے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے۔ شری برہماجی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کیا۔ اس سے یگیہ جو قتل ہوتا ہے وہ بدھ نہیں کہلاتا۔ حیوان، پرند، کچھوا وغیرہ، یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔‘‘ [ ادہیائے : ۵۔ شلوک : ۲۲، ۲۳، ۳۹، ۴۰ ] گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے۔ اس جگہ ہم نے صرف یہ دکھانا تھا کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ بحمد اللہ اپنا ثبوت رکھتا ہے، باقی قربانی کی علت اور وجہ کے لیے ہماری کتب مباحثہ، حق پر کاش، ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔‘‘ لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ ....: یعنی ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی ہے، تاکہ وہ ہمارے عطا کردہ پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام لے کر انھیں قربان کریں، نہ کہ کفار کی طرح ہمارے عطا کر دہ چوپاؤں کو بتوں اور غیر اللہ کے آستانوں پر انھیں خوش کرنے کی نیت سے ذبح کریں۔ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗ اَسْلِمُوْا : پہلی امتوں پر قربانی مقرر کرنے کے ذکر کے بعد اب ہماری امت کو خطاب ہے کہ پہلی امتوں کا الٰہ اور تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، سو تم بھی پوری طرح اسی کے فرماں بردار ہو جاؤ اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے سپرد کر دو اور اپنی ہر عبادت، جس میں قربانی بھی ہے، صرف اسی کے لیے کرو۔ اگر کسی اور کے لیے کرو گے تو اس کی عبادت میں شرک کے مجرم ٹھہرو گے۔ مگر اب بعض مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ عید الاضحیٰ پر قربانی کو بھی عبد القادر جیلانی کی گیارھویں قرار دے کر ان کے نام کا ختم دیتے ہیں، اس سے بڑھ کر شرک کیا ہو گا؟ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ:’’ الْمُخْبِتِيْنَ ‘‘ باب افعال ( إِخْبَاتٌ ) سے اسم فاعل ہے۔ ’’خَبْتٌ‘‘ نیچی جگہ کو کہتے ہیں۔ ’’مُخْبِتٌ‘‘ کا معنی نیچی جگہ میں چلنے والا ہے، پھر یہ لفظ استعارہ کے طور پر تواضع اور عاجزی کرنے والے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ بعض حضرات نے اسے ’’خَبَتِ النَّارُ‘‘ (آگ بجھ گئی) سے مشتق مانا ہے، حالانکہ اس کا اصل ’’خ ب و‘‘ ہے، جبکہ ’’ الْمُخْبِتِيْنَ ‘‘ کا اصل ’’خ ب ت‘‘ ہے۔ یعنی ان عاجزی کرنے والوں کو بشارت دے دے کہ جن کے ہاں اللہ کے حضور عاجزی ہی عاجزی ہے اور ذرہ بھر تکبر نہیں۔ یہاں مراد حج و عمرہ کے لیے آنے والے ہیں کہ ان کی کفن جیسی ان سلی چادروں، ننگے سروں، ان کی وضع قطع، ان کی لبیک کی صداؤں، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں وقوف، ان کے طواف، سعی اور ان کی قربانیوں، غرض ہر چیز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے پامال ہو چکے ہیں۔