سورة الحج - آیت 32

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(حقیقت حال) یہ ہے پس (یاد رکھو) جس کسی نے اللہ کی نشانیوں کی عظمت مانی تو اس نے ایسی بات مانی جو فی الحقیقت دلوں کی پرہیزگاری کی باتوں میں سے ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ذٰلِكَ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ ....:’’ ذٰلِكَ‘‘ کی تفسیر آیت (۳۰) میں ملاحظہ فرمائیں۔’’شَعَآىِٕرَ‘‘ ’’شَعِيْرَةٌ‘‘ کی جمع ہے، اسم فاعل بمعنی ’’ مُشْعِرَةٌ ‘‘ ہے، جس سے کسی چیز کا شعور ہو (نشانیاں)، یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا شعور دلانے کے لیے مقرر کر رکھی ہیں، جو شخص ان کی تعظیم کرے گا تو اس کا باعث دلوں کا تقویٰ ہے، یعنی جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو گا وہ ان کی تعظیم ضرور کرے گا۔ ہر وہ چیز جس کی زیارت کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اس میں حج کا کوئی عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ ’’شعائر الله‘‘ میں داخل ہے۔ قربانی کے جانور بھی ’’شعائر الله‘‘ میں داخل ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ ﴾ [الحج : ۳۶ ] ’’اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔‘‘ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے، جیسا کہ آگے حدیث آ رہی ہے اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔ ’’شعائر الله‘‘ کی تعظیم اگرچہ اس سے پہلے ’’ حُرُمٰتِ اللّٰهِ ‘‘ کی تعظیم میں آ چکی ہے مگر ’’ حُرُمٰتِ ‘‘ کا مفہوم وسیع اور عام ہے جب کہ ’’ شَعَآىِٕرَ ‘‘ خاص ہے، اس لیے ’’شعائر الله‘‘ کی تعظیم کی تاکید کے لیے اسے دوبارہ الگ ذکر فرمایا۔