سورة الحج - آیت 29

ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر قربانی کے بعد وہ اپنے جسم و لباس کا میل کچیل دور کردیں (یعنی احرام اتار دیں) نیز اپنی نذریں پوری کریں اور اس خانہ قدیم (یعنی خانہ کعبہ) کے گرد پھیرے پھر لیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ : ’’ تَفَثٌ ‘‘ کے دو معنی کیے گئے ہیں، ایک میل کچیل اور دوسرا مناسک حج۔ پہلے معنی کے مطابق ترجمہ ہو گا ’’پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ احرام باندھنے کے ساتھ ہی سلے ہوئے کپڑے پہننا، بال یا ناخن کٹوانا اور خوشبو لگانا حرام ہو جاتا ہے۔ صرف دو چادریں ہوتی ہیں، سر ننگا ہوتا ہے اور زیادہ مل مل کر غسل نہیں کرنا ہوتا، اس مسافرانہ اور فقیرانہ حالت میں بدن پر میل کچیل چڑھ جاتا ہے۔ دس ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کو کنکر مارنے کے بعد بیوی سے مباشرت کے سوا احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پھر وہ سر کے بال منڈوائیں یا کتروائیں اور ناخن وغیرہ صاف کریں، پھر غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہن لیں۔ اگر کسی نے قربانی کرنی ہو تو بہتر ہے احرام کھولنے سے پہلے کرلے، اگر احرام کھول کر قربانی کرے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ احرام کھول کر، سلے ہوئے کپڑے پہن کر بیت اللہ کے طواف کے لیے روانہ ہو جائیں۔ اس طواف کا نام طواف زیارت اور طواف افاضہ ہے، یہ حج کا رکن ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔ اس طواف کے بعد احرام کی آخری پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے اور بیوی سے مباشرت حلال ہو جاتی ہے۔ دوسرے معنی کے مطابق ترجمہ ہو گا ’’پھر وہ اپنے حج کے اعمال پورے کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔‘‘ وَ لْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ : یعنی فریضۂ حج کے اعمال سے زائد کسی عمل کی نذر مانی ہو تو وہ پوری کریں، مثلاً زائد طواف یا مسجد حرام میں اعتکاف یا زائد قربانی یا نفل نماز یا صدقہ یا قرآن کی تلاوت وغیرہ۔ وَ لْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ: ’’طَافَ يَطُوْفُ طَوَافًا ‘‘(ن)کسی چیز کے گرد پھرنا، چکر لگانا۔ ’’ وَ لْيَطَّوَّفُوْا ‘‘ باب تفعل سے ہے جو اصل میں ’’لِيَتَطَوَّفُوْا‘‘ تھا، حروف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، یعنی بیت اللہ کا خوب طواف کریں، فرض طواف کے علاوہ نفل طواف بھی کثرت سے کریں۔ یا باب تفعل سے طواف کی مشکل کی طرف اشارہ ہے، جو اس دن حاجیوں کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے پیش آتی ہے کہ اسے برداشت کرتے ہوئے کعبۃ اللہ کا طواف کریں۔ بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : عتیق کا معنی قدیم ہے۔ زمین پر اللہ کا پہلا تعمیر کیا جانے والا گھر ہونے کی وجہ سے اس کا نام ’’اَلْبَيْتُ الْعَتِيْقُ‘‘ ہے۔ عتیق کا دوسرا معنی آزاد ہے، یعنی اللہ کے سوا اس کا مالک کوئی نہیں جو اس میں آنے سے کسی کو روک سکے۔ یہ ہر آقا کے تسلط سے آزاد ہے۔ یہ مشرکین کا ظلم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے آنے والے مسلمانوں کو اس سے روکتے ہیں۔ آزاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس پر کبھی کوئی جابر مسلط نہیں ہو سکا، جیسا کہ اصحاب الفیل کا واقعہ معروف ہے۔ جو ظالم بھی اس گھر پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا اس کا یہی حال ہو گا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَغْزُوْ جَيْشٌ الْكَعْبَةَ فَإِذَا كَانُوْا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ )) [ بخاري، البیوع، باب ما ذکر في الأسواق : ۲۱۱۸ ] ’’ایک لشکر کعبہ سے جنگ کے لیے آئے گا، جب وہ بیداء (مکہ کے باہر کھلے میدان) میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيُحَجَّنَّ الْبَيْتُ وَلَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوْجِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ )) [ بخاري، الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی : جعل اللّٰہ الکعبۃ....: ۱۵۹۳ ] ’’یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج اور عمرہ جاری رہے گا۔‘‘ علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ )) [ بخاري، الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿جعل اللّٰہ الکعبۃ....﴾ : ۱۵۹۱ ] ’’(قیامت کے قریب) ایک پتلی پنڈلیوں والا حبشی بیت اللہ کو گرا دے گا۔‘‘ مزید فرمایا : ((كَأَنِّيْ بِهِ أَسْوَدَ أَفْحَجَ يَقْلُعُهَا حَجَرًا حَجَرًا )) [ بخاري، الحج، باب ھدم الکعبۃ : ۱۵۹۵ ] ’’گویا میں وہ دیکھ رہا ہوں، کالا ٹیڑھے پاؤں والا ہے، اسے ایک ایک پتھر کر کے اکھیڑ رہا ہے۔‘‘