سورة البقرة - آیت 256

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

دین کے بارے میں کسی طرح کا جبر نہیں (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے، اور جبر و تشدد سے اعتقاد پیدا نہیں کیا جاسکتا) بلاشبہ ہدایت کی راہ گمراہی سے الگ اور نمایاں ہوگئی ہے (اور اب دونوں راہیں لوگوں کے سامنے ہیں۔ جسے چاہیں اختیار کریں۔ پھر جو کوئی طاغوت سے انکار کرے (یعنی سرکشی و فساد کی قوتوں سے بیزار ہوجائے) اور اللہ پر ایمان لائے تو بلاشبہ اس نے (فلاح و سعادت کی) مضبوط ٹہنی پکڑ لی۔ یہ ٹہنی ٹوٹنے والی نہیں (جس کے ہاتھ آگئی وہ گرنے سے محفوظ ہوگیا) اور یاد رکھو اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ:ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’(جاہلیت میں) اگر کسی عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تو وہ یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر بچہ زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنا دے گی، پھر جب بنونضیر کو جلاوطن کیا گیا تو ان میں انصار کے کئی لڑکے تھے، انصار نے کہا:’’ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے ‘‘ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ [أبوداؤد، الجہاد، باب فی الأسیر یکرہ علی الإسلام:۲۶۸۲، وصححہ الألبانی ] یعنی زبردستی کسی کو مسلمان بنانا جائز نہیں، جو مسلمان ہونا چاہے سوچ سمجھ کر مسلمان ہو۔ زبردستی ہو گی تو دل میں ایمان نہیں آئے گا، اس کا کیا فائدہ؟ البتہ اسلام مسلمانوں کو کفر کا محکوم بننے کے بجائے جہاد کے ذریعے سے تمام کفار کو اسلام کا محکوم بنانے کاحکم دیتا ہے، جس میں کفار پر مسلمان ہونے کے لیے زبردستی نہیں کی جاتی، وہ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں مگر غلبۂ اسلام کی علامت کے طور پر ان سے معمولی رقم بطورجزیہ لی جاتی ہے۔ اگر زبردستی مسلمان بنانا جائز ہوتا تو آج ہندوستان میں غیر مسلموں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا، جیسا کہ اندلس میں نصرانیوں نے مسلمانوں پر زبردستی کرکے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا ڈالا۔ بِالطَّاغُوْتِ:یہ ”طَغٰي يَطْغٰي طُغْيَانًا“ سے مصدر برائے مبالغہ ”فَعَلُوْتٌ“ کے وزن پر ہے، جیسے جبروت اور ملکوت ہے۔ ”فَعَلُوْتٌ“ کے وزن پر ”طَغَيُوْتٌ“ تھا، پھرتخفیف کے لیے اس میں قلب کیا گیا، یاء کو پہلے اور غین کو بعد میں کر دیا گیا ’’طَيَغُوْتٌ“ہو گیا، پھر یائے متحرکہ کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا گیا تو ”طَاغُوْتٌ“ بن گیا، جس کا وزن ”فَلُعُوْتٌ“ہے۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، جس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی حد سے آگے بڑھ جانا۔ طاغوت میں ’’واؤ ‘‘ اور ’’تاء ‘‘ مبالغہ کے لیے ہیں، یعنی جو اپنی حد سے بہت زیادہ آگے بڑھ جائے۔ تمام باطل معبود طاغوت ہیں، کیونکہ انھیں حد سے بڑھا کر اللہ تعالیٰ کے برابر کر دیا گیا ہے۔ شیطان کو بھی اسی لیے طاغوت کہتے ہیں۔ جو شخص لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی اور اطاعت کرواتا ہے وہ بھی طاغوت ہے۔