اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ "الحی" ہے (یعنی زندہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے فنا و زوال نہیں۔ القیوم ہے، (یعنی ہر چیز اس کے حکم سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں) اس (کی آنکھ) کے لیے نہ تو اونگ ہے نہ (دماغ کے لیے) نیند۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور اسی کے حکم سے ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کے لیے زبان کھولے، جو کچھ انسان کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ پیچھے ہے وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں۔ انسان اس کے علم سے کسی بات کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ مگر یہ کہ جتنی بات کا علم وہ انسان کو دینا چاہے اور دے دے۔ اس کا تخت (حکومت) آسمان و زمین کے تمام پھیلاؤ پر چھایا ہوا ہے اور ان کی نگرانی و حفاظت میں اس کے لیے کوئی تھکاوٹ نہیں۔ اس کی ذات بڑی ہی بلند مرتبہ ہے
1۔ یہ آیت الکرسی ہے جو قرآن مجید کی تمام آیات سے عظیم آیت ہے۔ اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے؟‘‘ فرماتے ہیں، میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟‘‘ کہتے ہیں، میں نے عرض کی:﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ﴾ (اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:’’اللہ کی قسم ! (تم نے درست کہا) اے ابو منذر ! تمہیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘ [مسلم، صلوٰۃ المسافرین، باب فضل سورۃ الکہف و آیۃ الکرسی:۸۱۰ ] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے، اس میں ان کا زکوٰۃ الفطر کی حفاظت پر مامور ہونا اور ایک شخص کا تین دن آ کر چوری کی کوشش کرنا، دو مرتبہ گرفتار ہو کر منتیں کرکے چھوٹنا اور تیسری دفعہ گرفتار ہونے پر انھیں یہ بتانا مذکور ہے کہ جب تم بستر پر آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، تو لازماً اللہ کی طرف سے تم پر ایک حفاظت کرنے والا مقرر ہو گا اور تمہارے صبح کرنے تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’تمہارے قیدی کا کیا بنا ؟‘‘ میں نے سارا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یاد رکھو ! اس نے تمہیں سچ بتایا، حالانکہ وہ بہت جھوٹا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا :’’وہ شیطان تھا۔‘‘ [بخاری، الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک:۲۳۱۱، ۵۰۱۰ ] اس حدیث سے آیت الکرسی کی فضیلت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا نام آیت الکرسی ہونے کی تصدیق بھی معلوم ہوئی۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اسے جنت میں داخلے سے سوائے موت کے کوئی اور چیز نہیں روکے گی۔‘‘ [عمل الیوم واللیلۃ للنسائی، ص:۱۸۳۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۹۷۲۔ ابن کثیر اور البانی رحمہا اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ] 2۔ قرآن مجید کی سب سے لمبی آیت:﴿اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ ﴾ [البقرۃ:۲۸۲ ] ہے، مگر سب سے زیادہ عظمت والی آیت، آیت الکرسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کا موضوع توحید ہے، جو اس میں کئی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ موضوع اور دلیلوں کی وجہ سے یہ سب سے بڑی آیت ہے۔ سورۂ اخلاص چھوٹی سی سورت ہونے کے باوجود قرآن کے ثلث (تہائی حصے) کے برابر ہے۔ [بخاری، فضائل القرآن، باب فضل:﴿قل ھو اللہ أحد ﴾:۵۰۱۳ ] اس کی وجہ بھی موضوعِ توحید کی عظمت ہے۔ نکتہ:آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے اسماء اور ضمائر کی صورت میں سولہ (16) دفعہ آیا ہے۔ ”يَعْلَمُ“ اور ”شَآءَ“ میں بھی ضمیریں موجود ہیں۔ 3۔ آیت الکرسی ایک دعویٰ اور اس کی گیارہ دلیلوں پر مشتمل آیت ہے۔ دعویٰ یہ ہے:﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ یعنی اللہ وہ ہے جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ پہلی دلیل:وہ ”اَلْحَيُّ“ ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((كَانَ اللّٰهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ قَبْلَهُ )) ’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘ [بخاری، التوحید، باب ﴿و کان عرشہ علی الماء ﴾:۷۴۱۸ ] اس کے سوا کسی ہستی میں یہ خوبی نہیں۔ چنانچہ فرمایا:﴿هُوَ الْحَيُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ [المؤمن:۶۵ ] ’’وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس کے سوا جس چیز کی بھی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی، ہر چیز موت کی آغوش سے نکلی ہے اور اسی کی آغوش میں جانے والی ہے، فرمایا:﴿كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا ﴾ [البقرۃ:۲۸ ] ’’تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے۔‘‘ اور فرمایا:﴿وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَ () اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ﴾ [النحل:۲۰، ۲۱ ]’’اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں۔‘‘ وہی ایک ہے جس کو دائم بقا ہے جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب (حالی) دوسری دلیل:”الْقَيُّوْمُ“ یہ ”قَامَ يَقُوْمُ“ سے ”فَيْعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، اصل میں ”قَيْوُوْمٌ“ تھا، پہلی واؤ کو یاء سے بدل دیا، پھر پہلی یاء کو دوسری میں ادغام کر دیا، یاء کے اضافے سے مزید مبالغہ پیدا ہو گیا، یعنی وہ کسی سہارے کے بغیر خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا، تھامنے والا ہے۔ انسان جو ”اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى“ کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے، ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کے تھامنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خود اس کے دل کی دھڑکن، سانس کی آمدورفت، پیشاب و پاخانے کا نظام، خون کی گردش، نیند اور بیداری حتیٰ کہ زندگی اور موت کچھ بھی اس کے ہاتھ میں نہیں، تو دوسروں کو کیا تھامے گا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، آپ پر آنے والی تکلیفیں، یعنی آپ کا زخمی ہونا، گھوڑے سے گر کرموچ آنا، بیمار ہونا، بھوک، پیاس، غرض پوری زندگی اس کی شاہد ہے، پھر اتنی وسیع کائنات اور لاتعداد مخلوقات کو اللہ کے سوا کون ہے جو تھامے ہوئے ہے کہ اسے مشکل کشا، داتا یا دستگیر یا جھولی بھرنے والا سمجھا جائے۔ آسمان و زمین سے متعلق فرمایا:﴿اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا﴾ [فاطر:۴۱ ] ’’بے شک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں۔‘‘ اڑتے پرندوں کے متعلق فرمایا:﴿مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ﴾ [الملک:۱۹ ] ’’ رحمان کے سوا انھیں کوئی تھام نہیں رہا ہوتا۔‘‘ تیسری دلیل:”لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ“ ”سِنَةٌ“ اصل میں ”وَسَنٌ“ تھا، جیسے:”وَعْدٌ“ سے ”عِدَةٌ“ ہے، شروع سے ’’واؤ ‘‘ حذف کرکے آخر میں ’’تاء ‘‘ لے آئے۔ معنی ہے نیند سے پہلے آنے والی اونگھ، جب آدمی سونے اور جاگنے کے درمیان ہوتا ہے۔ ”سِنَةٌ“ اور ”نَوْمٌ“ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے:’’اسے نہ کچھ اونگھ پکڑتی ہے نہ کوئی نیند ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو ذرا برابر اونگھ یا نیند اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اونگھ اور نیند اتنی زبردست چیزیں ہیں کہ جس پر آتی ہیں اسے پکڑ لیتی ہیں، انسان ان کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ صبح کی نماز کے لیے طلوعِ آفتاب کے بعد بیدار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند دونوں سے پاک ہے، کیونکہ اگر اسے اونگھ یا نیند آ جائے تو کائنات آپس میں ٹکرا کر فنا ہو جائے، اگر تجربہ کرنا ہو تو ہوشیار سے ہوشیار شخص کے دونوں ہاتھوں میں شیشے کا ایک ایک گلاس دے کر اسے ایک دو راتیں جگا کر تجربہ کر لیں۔ چوتھی دلیل:”لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ“ یعنی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے۔ [مزيد ديكهيے مريم:۹۳ تا ۹۵] جب مالک وہ ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یحییٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو یہ بات سمجھائی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص نے اپنے خالص مال سونے یا چاندی کے ساتھ ایک غلام خریدا اور غلام سے کہا کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے، اس میں کام کرو اور اس کی آمدنی مجھے دیا کرو۔ غلام سارا دن کام کرتا اور شام کو آمدنی مالک کے سوا کسی اور کو دے دیتا، تو تم میں سے کون ہے جو ایسے غلام کو پسند کرے ؟‘‘ [ترمذی، الأدب، باب ما جاء فی مثل الصلوٰۃ:۲۸۶۳، و صححہ الألبانی ] پانچویں دلیل:”مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ“ یعنی کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ آیت الکرسی سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کسی بھی قسم کی سفارش کی نفی فرمائی ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش ممکن بتائی ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان یا جن یا فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کی جرأت کرے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب سفارش کے لیے جائیں گے تو جب اپنے رب کو دیکھیں گے تو سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کریں گے، جو اللہ تعالیٰ اس وقت آپ کو سکھائے گا، پھر اللہ تعالیٰ سر اٹھانے کا حکم دے گا اور ایک حد مقرر کرکے فرمائے گا کہ ان لوگوں کو جہنم سے نکال لو۔ [بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی:﴿لما خلقت بيدي﴾:۷۴۱۰ ] قیامت کے دن سفارش تو کجا اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کرے گا، جیسا کہ فرمایا:﴿يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا ﴾ [النبا:۳۸ ] ’’جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے، وہ کلام نہیں کریں گے، مگر وہی جسے رحمان اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا۔‘‘ یہ عقیدہ کہ کوئی زبردستی اللہ تعالیٰ سے بات منوا سکتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کسی کی محبت کے ہاتھوں اس کی سفارش ماننے پر مجبور ہو گا، خالص جاہلانہ عقیدہ ہے، مکہ کے مشرکوں کا بھی یہی عقیدہ تھا، اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ زمر (۳) اور سورۂ یونس (۱۸) وہاں عجز و نیاز کے سوا اور خود اس کی مہربانی سے اجازت کے بغیر کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ شفاعت کا مضمون اچھی طرح سمجھنے کے لیے شاہ اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کی تیسری فصل کا مطالعہ کریں۔ چھٹی دلیل:”يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ“ یعنی وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ سامنے سے مراد حاضر چیزیں اور پیچھے سے مراد غائب چیزیں ہیں۔ اس میں ماضی، حال اور استقبال سب کا علم آ گیا۔ اس کے سوا کسی ہستی میں یہ صفت موجود نہیں، فرمایا:﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ ﴾ [النمل:۶۵ ] ’’کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ ہمارے اور پوری کائنات کے تمام گزشتہ، موجودہ اور آئندہ حالات سے واقف ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ ساتویں دلیل:”وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ“ یعنی کوئی شخص اللہ کے علم یعنی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتا مگر جتنا وہ چاہے، جیسا کہ فرمایا:﴿عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا () اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ [الجن:۲۶، ۲۷ ] ’’(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کر لے۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک اور معنی کا احتمال بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے وہ اللہ کی ذات و صفات کے علم میں سے کسی بات پر مطلع نہیں ہو سکتا مگر جتنا وہ خود چاہے اور بتا دے، گویا یہ اس آیت کی ہم معنی ہے:﴿ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ﴾ [طٰہٰ:۱۱۰ ] ’’اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ایک چڑیا نے سمندر میں ایک یا دو ٹھونگے مارے تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا:’’میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم سے کم نہیں کیا مگر جتنا اس چڑیا کے ٹھونگے نے سمندر سے کم کیا ہے۔‘‘ [بخاری، العلم، باب ما یستحب للعالم....:۱۲۲ ] اب خود سوچ لو کہ عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ ہے یا یہ بے بس مخلوق۔ آٹھویں دلیل:”وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ“ کرسی کا معنی سب لوگوں کے ہاں معروف ہے، یعنی وہ چیز جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ سلف صالحین کے نزدیک اس کا معنی کرسی ہی ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی کرسی موجود ہے اور ہمارا اس کے وجود پر ایمان ہے، اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں، البتہ قرآن مجید میں جو آیا ہے اس کے مطابق اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ بعد میں آنے والے مفسرین میں سے بعض نے سلف کا مسلک ہی اختیار کیا ہے، البتہ بعض نے کہا کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہے اور بعض نے کہا، اس سے مراد علم ہے۔ عموماً یہ وہ لوگ ہیں جو عرش کے بھی منکر ہیں، چنانچہ وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ نہ کوئی عرش ہے نہ کرسی، بلکہ مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور حکومت ہے۔ مگر کرسی کا یہ معنی حقیقی نہیں مجازی ہے، جو اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو، حالانکہ اللہ کے عرش اور کرسی کو حقیقی معنوں میں لینے سے کچھ خرابی لازم نہیں آتی۔ رہا یہ خیال کہ پھر تو اللہ تعالیٰ آدمیوں کے مشابہ ہو گیا جبکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں تو سلف کے فرمان کے مطابق ہم یہ کہتے ہی نہیں کہ وہ کرسی ہماری کرسیوں جیسی ہے، نہیں بلکہ وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔ انسان علیم ہے جیسا کہ فرمایا:﴿ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ﴾ [الذاریات:۲۸ ] ’’اور انھوں نے اسے ایک بہت علیم بیٹے کی خوش خبری دی‘‘ اور اللہ تعالیٰ بھی علیم ہے، تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کا انکار کر دیں کہ اس سے مشابہت لازم آتی ہے، نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے اپنی شان کے مطابق۔ اس سے بھی بڑھ کر مثال لے لیں، انسان موجود ہے تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا انکار کر دیں گے کہ اس سے انسان کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح آئی ہیں اسی طرح ماننا پڑیں گی۔ ہاں، وہ صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ آیت میں یہ جملہ بھی توحید کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کرسی کی وسعت اس کے ایک معبود ہونے کی دلیل ہے۔ نویں دلیل:”وَ لَا ئَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا“ ”آدَ يَؤُوْدُ“ کا معنی کسی چیز کا بھاری بوجھ بننا، مشقت میں ڈال دینا ہے۔ مخلوق کتنی بھی بڑی ہو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کی حفاظت کچھ بوجھ نہیں۔ دسویں اور گیارھویں دلیل:”وَ هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ“ بلندی اور عظمت اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مخلوق اللہ تعالیٰ کی بلندی اور عظمت کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، اس لیے عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ آخر میں اس آیت میں موجود ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ آیت باری تعالیٰ کے نام ”اَللّٰهُ“ سے شروع ہوئی ہے، یہ نام تمام صفات کا جامع ہے، مخلوق میں سے کسی پر یہ نام نہیں بولا جا سکتا ہے۔ تمام مذاہب میں مذکور خداؤں کی تثنیہ و جمع بن سکتی ہے، مثلاً دیویوں، دیوتاؤں اور Gods وغیرہ مگر لفظ ’’اللہ ‘‘ واحد ہی رہے گا، اس کی نہ جمع بن سکتی ہے نہ تثنیہ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی زبردست دلیل ہے، اگر اس نکتہ کو بھی شامل کر لیں تو آیت میں توحید کی بارہ دلیلیں موجود ہیں۔