سورة الحج - آیت 6

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی ہستی ایک حقیقت ہے اور وہ بلاشبہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ ....: اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ ’’باء‘‘ سببیہ ہے جو ’’كَائِنٌ‘‘ وغیرہ سے متعلق ہے، جو افعال عامہ سے مشتق ہیں۔ یعنی بنی آدم کو پیدا کرنے اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہمیشہ ثابت اور موجود ہے، سو وہی ان دونوں کا اور ہر چیز کا موجد ہے۔ ’’ وَ اَنَّهٗ يُحْيِ الْمَوْتٰى ‘‘ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہی مردوں کو زندہ کرے گا، اگر وہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت نہ رکھتا تو بے جان مٹی اور نطفے کو اور مردہ زمین کو زندگی کیسے بخشتا؟ ’’ وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ‘‘ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، سو وہ نطفے اور مردہ زمین کو زندگی بخشنے پر بھی قادر ہے۔ ’’ وَ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ ....‘‘ اور اس کا سبب یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ قبروں میں دفن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، تاکہ ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے، ورنہ نطفے سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک پہنچانے کا کوئی مقصد نہ ہوتا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث اور بے مقصد نہیں۔ قدیم مفسرین یہ معنی بیان کرتے ہیں۔ 2۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’باء‘‘ کو ایسے لفظ کے متعلق کیا جائے جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو، مثلاً ’’ شَاهِدٌ ‘‘ وغیرہ، ’’أَيْ ذٰلِكَ شَاهِدٌ بِأَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ‘‘ مطلب یہ ہو گا کہ یہ جو کچھ گزرا، یعنی انسان کا مٹی سے، پھر نطفے سے (آخر تک) پیدا ہونا اور مردہ زمین کا پانی سے زندہ ہو جانا اس بات کا شاہد اور اس کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا....۔ متاخرین اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔