سورة الأنبياء - آیت 112

قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا الرَّحْمَٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس نے کہا (یعنی پیغمبر نے دعا کرتے ہوئے عرض کیا) خدایا ! اب (دیر نہ کر) سچائی کے ساتھ فیسلہ کردے اور ہمارا پروردگار تو (وہی) الرحمن ہے اسی سے مدد مانگی گئی ہے، جیسی کچھ باتیں تم بنا رہے ہو ان کے خلاف اسی کی مددگاری فیصلہ کردے گی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ....: پہلے انبیاء کی امتوں نے جب حق کو جھٹلایا تو انھوں نے حق تعالیٰ سے اس دعا سے ملتی جلتی دعا کی جو اس آیت میں مذکور ہے، چنانچہ شعیب علیہ السلام نے دعا کی : ﴿ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ ﴾ [الأعراف : ۸۹ ] ’’اے ہمارے رب! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ اور ان سب پیغمبروں کے متعلق فرمایا جنھیں ان کی قوم نے کفر اختیار نہ کرنے کی صورت میں اپنی بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی : ﴿ وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ﴾ [ إبراہیم : ۱۵ ] ’’اور انھوں نے (حق تعالیٰ سے) فیصلہ مانگا اور ہر سرکش، سخت عناد رکھنے والا نامراد ہوا۔‘‘ ’’ قٰلَ رَبِّ احْكُمْ ‘‘ کے’’ قٰلَ ‘‘ میں دو قراء تیں ہیں، ایک امر کے صیغے کے ساتھ ’’ قُلْ ‘‘ ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ یہ کہیں جو اس آیت میں مذکور ہے۔ دوسری قراء ت، جو ہمارے ہاں رائج ہے، اس کے مطابق یہ ماضی کا صیغہ ’’قَالَ‘‘ہے، جس کا معنی ہے، اس نے کہا۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے اس رسول نے بھی کفار کے جھٹلانے اور جلاوطن کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہم سے یہ کہا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی داعی جب ایسے حالات سے دو چار ہو تو اسے یہ دعا کرنی چاہیے۔ 2۔ قرآن مجید کے رسم الخط میں اس آیت کا پہلا لفظ الف کے بغیر ’’ قٰلَ ‘‘ لکھا گیا ہے، جسے ’’ قُلْ ‘‘ اور ’’ قَالَ ‘‘ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے، جس طرح ’’ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘ میں ’’ مَلِكِ ‘‘ اور ’’ مَالِكِ ‘‘ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے اور یہ قرآن مجید کے رسم الخط کا کمال ہے۔