وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں
اَفْرِغْ عَلَيْنَا:یہ باب افعال سے امر کا صیغہ ہے، جس کا معنی برتن انڈیل کر خالی کرنا ہے، یعنی انھوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہم پر پورا صبر انڈیل دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافروں پر ہماری مدد فرما۔ یہ بڑی جامع اور حسن ترتیب سے آراستہ دعا ہے، کیونکہ صبر آتا ہے تو ثابت قدمی ملتی ہے، ثابت قدمی ہو تو نصرتِ الٰہی ملتی ہے۔ معلوم ہوا مومن کے لیے میدان جنگ میں بھی تیاری کے باوجود سب سے بڑا ہتھیار اللہ پر اعتماد اور اس سے دعا ہے۔