سورة الأنبياء - آیت 76

وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اسی طرح) نوح کا معاملہ (بھی یاد کرو) جو ان (نبیوں) سے پیشتر کا ہے، جب اس نے ہمیں پکارا تھا تو (دیکھو) ہم نے اس کی پکار سن لی، اور اسے اور اس کے گھرانے کو ایک بڑی ہی سختی سے نجات دے دی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات دینے کے بعد نوح علیہ السلام کو پانی کے طوفان سے نجات دینے کا ذکر فرمایا۔ وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ....: نوح علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر سورۂ نوح (۲۶ تا ۲۸) میں تفصیل سے مذکور ہے، اسی طرح سورۂ قمر میں ہے: ﴿ فَدَعَا رَبَّهٗ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ﴾ [ القمر :۱۰] ’’تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے۔‘‘ فَنَجَّيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ : ’’ اَهْلَهٗ ‘‘ سے مراد ان کے مشرک بیٹے اور بیوی کے سوا باقی گھر والے ہیں۔ بیٹے کے متعلق دیکھیے سورۂ ہود (۴۰ تا ۴۳) اور بیوی کے متعلق سورۂ تحریم (۱۰)۔ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ: ’’ الْكَرْبِ ‘‘ کا معنی ہے ’’أَقْصَي الْغَمِّ ‘‘ یعنی آخری حد کو پہنچا ہوا غم۔ ’’ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ‘‘ سے مراد کفار کی نوح علیہ السلام سے ساڑھے نو سو برس کی مسلسل مخالفت، بدسلوکی، ایذا رسانی، استہزا اور سنگسار کرنے کی دھمکیاں بھی ہیں، جن کا شکوہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور کیا، جو سورۂ نوح کی آیت (۵) سے آیت (۲۴) تک میں مذکور ہے اور جن کا ذکر سورۂ ہود (۳۸) اور شعراء (۱۱۶) میں ہے۔ پہاڑوں جیسی موجوں والا طوفان بھی مراد ہے، جس نے اللہ کے حکم سے زمین پر بسنے والا ایک مشرک بھی باقی نہ چھوڑا۔ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ : اس کی تفصیل سورۂ ہود (۳۷ تا ۴۹) میں ملاحظہ فرمائیں۔