أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا ۚ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ
پھر کیا ان کے لیے معبود ہیں جو ہم سے انہیں بچا سکتے ہیں؟ (بھلا وہ کیا بچائیں گے) وہ خود اپنی مدد تو کر نہیں سکتے اور نہ ہماری ہی طرف سے حفاظت پاسکتے ہیں۔
1۔ اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا : ’’ اَمْ ‘‘ کا عطف اس سے پہلے محذوف جملہ استفہامیہ پر ہوتا ہے۔ (بقاعی) یعنی کیا حقیقت وہی ہے جو اوپر گزری کہ ہمارے عذاب سے انھیں کوئی بچانے والا نہیں، یا ہمارے سوا ان کے کوئی ایسے معبود ہیں جو ان کو بچاتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں؟ ’’ مِنْ دُوْنِنَا ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’یا ان کے کوئی ایسے معبود ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کو بچاتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔‘‘ 2۔ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ : یہ اس کا رد ہے کہ ان کے معبود انھیں بچا سکتے ہیں، یعنی ان کے بنائے ہوئے معبود اپنی مدد نہیں کر سکتے تو ان کی یا کسی اور کی کیا مدد کریں گے؟ 3۔ وَ لَا هُمْ مِّنَّا يُصْحَبُوْنَ : ’’اور نہ ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جاتا ہے‘‘ یہ کفار کے اس عقیدے کا رد ہے کہ ہمارے معبود ہمیں بچانے کی طاقت نہ بھی رکھتے ہوں تو انھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کا ساتھ حاصل ہے، جس کی بدولت وہ جو چاہیں کروا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے معبود نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ انھیں ہمارا کسی قسم کا ساتھ یا تائید حاصل ہے۔ اس کے قریب معنی والی آیت دیکھیے سورۂ زمر (۳)۔ (ابن عاشور)