سورة الأنبياء - آیت 36

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ هُمْ كَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جب تجھے وہ لوگ دیکھتے ہیں جنہوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو انہیں اور تو کچھ سوجھتا نہیں، بس تجھے اپنی ہنسی ٹھٹھے کی بات بنا لیتے ہیں، کیا یہی وہ آدمی ہے جو ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ اور ان کا حال یہ ہے کہ خدائے رحمان کے ذکر سے یک قلم نکر ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: ’’ هُزُوًا ‘‘ مصدر بمعنی مفعول ہے، یعنی جسے مذاق کیا جائے۔ پچھلی آیت میں لوگوں کو خیر و شر کے ساتھ آزمانے کا ذکر فرمایا۔ بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑی خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور آپ کی آمد لوگوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش بھی ہے کہ کون نعمت کی قدر کرتے ہوئے آپ پر ایمان لاتا ہے اور کون ناشکری اور کفر کرتا ہے۔ اس آیت میں اس نعمت کے عطا ہونے پر ناشکری کرنے والے لوگوں یعنی کافروں کے رویے کا ذکر فرمایا کہ جب وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کو مذاق ہی بناتے ہیں، سنجیدگی سے نہ کوئی بات سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں۔ اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ : یہ جملہ ان کے ٹھٹھے کی تفسیر ہے، یعنی وہ آپ کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمھارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ ذکر کرنے سے مراد اچھائی سے ذکر کرنا بھی ہوتا ہے اور برائی سے بھی، تعین اس کا حال کے قرینے سے ہوتا ہے، مثلاً کوئی شخص آپ سے آپ کے کسی دوست کے متعلق بیان کرتا ہے کہ وہ آپ کا ذکر کر رہا تھا، تو ظاہر ہے اس کی مراد یہی ہے کہ وہ آپ کی تعریف کر رہا تھا اور اگر آپ کے کسی مخالف کے متعلق بیان کرے کہ وہ آپ کا ذکر کر رہا تھا تو اس سے مراد یہی ہو گی کہ وہ برائی کے ساتھ آپ کا ذکر کر رہا تھا۔ جیسا کہ بت توڑنے والے کو تلاش کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے کہا تھا: ﴿ سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗ اِبْرٰهِيْمُ ﴾ [ الأنبیاء : ۶۰ ] ’’ہم نے ایک جوان کو سنا ہے، وہ ان کا ذکر کرتا ہے، اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔‘‘ ’’اَهٰذَا ‘‘ (کیا یہی ہے) میں ہمزہ تعجب کے اظہار کے لیے اور ’’ هٰذَا ‘‘ تحقیر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ : یعنی ان کے معبودوں کا برائی سے ذکر کرنے پر آپ کا مذاق اڑانا انھیں کس طرح زیب دیتا ہے، جب کہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ رحمان کے ذکر ہی سے منکر ہیں؟ انھیں اس بے حد رحم والے کا ذکر گوارا نہیں جس نے انھیں پیدا کیا، ان پر انعام فرمایا اور جس اکیلے کے ہاتھ میں ان کا نفع اور ان کا نقصان ہے۔ پھر مذاق کے حق دار یہ لوگ ہیں یا ہمارا رسول؟ ’’بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ ‘‘ کی تفسیر بعض مفسرین نے قرآن مجید فرمائی ہے کہ ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ ﴾ [الحجر : ۹ ] یعنی وہ خود رحمان کے نازل کردہ ذکر کے منکر ہیں۔