سورة الأنبياء - آیت 28

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے (یعنی ان کا ماضی بھی اور مستقبل بھی) سب اللہ جانتا ہے، ان کی مجال نہیں کہ کسی کو اپنی سفارش سے بخشوا لیں مگر ہاں جس کسی کی بخشش اللہ پسند فرمائے اور وہ تو اس کی ہیبت سے خود ہی ڈرتے رہتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ: یعنی جو کام وہ کر چکے یا جو آئندہ کریں گے وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اس میں ان کے اس قدر اطاعت گزار اور فرماں بردار ہونے کی وجہ بیان فرمائی ہے، یعنی وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری پہلی، پچھلی، ظاہر اور پوشیدہ ہر بات جانتا ہے، اس لیے وہ اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ وَ لَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى : یعنی وہ اسی کے حق میں سفارش کرتے ہیں جسے وہ پسند کرے اور جس کے حق میں سفارش کو پسند کرے اور اس کی اجازت دے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۵) اور سبا (۲۳) مراد اس سے اہل ایمان اور اہل توحید ہیں، کیونکہ کافر و مشرک نہ اللہ کو پسند ہیں اور نہ اسے ان کے حق میں سفارش پسند ہے۔ یہ سفارش دنیا میں بھی ہے، جیسا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں دعا اور استغفار کرتے ہیں (دیکھیے سورۂ مومن : ۷ تا ۹) اور انبیاء و رسل بھی ان کے حق میں دعا کیا کرتے تھے۔ آخرت میں بھی فرشتے اور انبیاء سفارش کریں گے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((شَفَاعَتِيْ لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ)) [مستدرک حاکم : ۱؍۶۹، ح : ۲۲۸، و صححہ الذھبی ] ’’میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں والے لوگوں کے لیے ہو گی۔‘‘ اس میں بھی اولاد کی نفی ہے، کیونکہ اولاد والد کی مرضی کے خلاف بھی سفارش کر سکتی ہے۔ وَ هُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ: اس میں فرشتوں اور رسولوں کی اللہ تعالیٰ کے لیے انتہائی تعظیم کا ذکر فرمایا کہ وہ اس کے خوف کی وجہ سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی اولاد نہ ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ والد اور اولاد کا یہ حال نہیں ہوتا۔