سورة الأنبياء - آیت 13

لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اب بھاگتے کہاں ہو؟ اپنے اسی عیش و عشرت میں لوٹو (جس نے تمہیں اس قدر سرشار کر رکھا تھا) اور انہی مکانوں میں (جن کی مضبوطی کا تمہیں غرہ تھا) شاید (وہاں تدبیر و مشورہ میں تمہاری ضرورت ہو اور) تم سے کچھ دریافت کیا جائے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْا اِلٰى مَا اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ....: یعنی ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ انھیں کہا جائے یا فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ بھاگو نہیں، بلکہ ان جگہوں کی طرف جن میں تمھیں خوشحالی دی گئی تھی اور اپنے گھروں کی طرف واپس آؤ، تاکہ تم سے پوچھا جائے کہ ان تمام نعمتوں کی تم نے کیا قدر کی؟ ایک معنی یہ ہے کہ اپنی انھی مجلسوں میں دوبارہ واپس آؤ، تاکہ پہلے کی طرح تمھارے نوکر چاکر ہاتھ باندھ کر تم سے سوال کریں کہ سرکار کیا حکم ہے؟ تیسرا معنی یہ ہے کہ بھاگو نہیں، بلکہ اپنی وہی پنچایتیں اور کونسلیں جما کر بیٹھو، تاکہ لوگ اپنے مسائل کا حل تم سے پوچھنے کے لیے آئیں اور مانگنے والے تم سے مانگنے کے لیے آئیں، جنھیں تم فخر و ریا کے لیے دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ سب کچھ انھیں ڈانٹنے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔