سورة الأنبياء - آیت 1

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وقت قریب آلگا ہے کہ لوگوں سے (ان کے اعمال کا) حساب لیا جائے، اس پر بھی ان کا یہ حال ہے کہ رخ پھیرے غفلت میں متوالے چلے جارہے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ : ’’اِقْتَرَبَ ‘‘ ’’ قَرِبَ يَقْرَبُ ‘‘ (ع، ک) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’بہت قریب آ گیا۔‘‘ ’’ غَفْلَةٍ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بھاری غفلت‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔ ’’ اَلنَّاسُ‘‘ کا لفظ عام ہے، یعنی سب لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آ گیا، اس کے باوجود انھیں اس کی کچھ فکر نہیں، بلکہ وہ بھاری غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی دنیا کی دلچسپیوں میں محو ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ فِيْ غَفْلَةٍ‘‘ کی تفسیر ’’ غَفْلَةُ أَهْلِ الدُّنْيَا ‘‘ (دنیا والوں کی غفلت) فرمائی ہے۔ [ بخاري : ۴۷۳۰ ] دیکھیے سورۂ مریم (۳۹)۔ حِسَابُهُمْ: حساب کے لفظ میں دنیا و آخرت دونوں کا محاسبہ شامل ہے۔ دنیا میں محاسبہ جیسا کہ کفار قریش کو بدر اور فتح مکہ کی صورت میں پیش آیا اور ہر انسان کو سال میں ایک دو دفعہ پیش آتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۶ ] ’’اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘ دنیا کے محاسبے کے فوراً بعد موت کی صورت میں محاسبہ پیش آئے گا، فرشتے کفار کی جانیں نکالتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے: ﴿ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَكُمْ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ [ الأنعام : ۹۳ ] ’’نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔‘‘ موت کے بعد قبر کے سوال و جواب کی صورت میں محاسبہ اور آخر میں قیامت کے دن حساب ہو گا۔حساب کے لفظ میں یہ تمام محاسبے شامل ہیں مگر یوم حساب کے طور پر قیامت کا دن مشہور ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کے یہ تمام مرحلے بالکل قریب ہیں۔ حساب کی کچھ صورتیں تو زندگی ہی میں ہر روز پیش آتی رہتی ہیں، پھر موت کے قرب میں کسی کو شک نہیں، رہی قیامت تو اگرچہ وہ لوگوں کو دور دکھائی دیتی ہے مگر ہر آنے والی چیز قریب ہے، خواہ کتنے انتظار کے بعد آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا (6) وَ نَرٰىهُ قَرِيْبًا ﴾ [ المعارج : ۶، ۷ ] ’’بے شک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔‘‘ نیز دیکھیے سورۂ نحل (۱)، حج (۴۷) اور قمر (۱) اس لحاظ سے بھی یوم حساب بہت قریب آ گیا ہے کہ دنیا کی مدت کا اکثر حصہ گزر چکا۔ اب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ يَعْنِيْ )) ’’میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجے گئے ہیں۔‘‘ [ بخاري، الرقاق، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : بعثت أنا والساعۃ کھاتین : ۶۵۰۵، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] مُعْرِضُوْنَ : یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ’’اَلنَّاسُ‘‘ کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقیناً مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کرکے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقیناً ہونا ہے مگر وہ اس لیے بے پروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابوالعتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے: اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلاَتِهِمْ وَ رَحَي الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ ’’لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔‘‘