سورة طه - آیت 110

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے گزر چکا سب کا وہ علم رکھتا ہے، مگر انسان اپنے علم سے اس پر چھا نہیں سکتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ : دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ۲۵۵) کی تفسیر۔ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا : ’’بِهٖ ‘‘ کی ضمیر کے مرجع کے لحاظ سے اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ ’’بِهٖ‘‘ میں ’’هٖ‘‘ ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے قرار دی جائے۔ معنی یہ ہو گا کہ کسی کا علم اتنا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا احاطہ کر سکے، مخلوق کا محدود علم خالق کا احاطہ کیسے کر سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ یہ ضمیر ’’ يَعْلَمُ ‘‘ کے مصدر ’’عِلْمٌ‘‘ کے لیے قرار دی جائے۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ کوئی شخص اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا اور اس صورت میں یہ آیت الکرسی کے جملہ ’’ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ‘‘ کا ہم معنی ہو گا۔ تیسرا یہ ہے کہ ’’هٖ‘‘ ضمیر’’ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ‘‘ میں موجود ’’مَا ‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہو۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے کسی کا علم بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا جو لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا جن یا انسان یا کوئی اور) لوگوں کے اگلے پچھلے حال کا پورا علم نہیں ہے کہ جان سکیں کہ کس کے حق میں شفاعت کرنی چاہیے اور کس کے حق میں نہیں کرنی چاہیے، اس لیے شفاعت کو اللہ تعالیٰ کے اذن (اجازت) پر موقوف رکھا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو فرشتوں یا انبیاء و اولیاء اور بزرگوں کی پرستش اس امید پر کرتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔