سورة طه - آیت 108

يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے ہولیں گے اس سے منحرف نہ ہوسکیں گے، اور خدائے رحمان کے جلال کے آگے سب کی آوازیں خاموش ہوجائیں گی، اس سناٹے میں کوئی آواز سنائی نہیں دے گی مگر صرف قدموں کی آہٹ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ....: یعنی قیامت کے دن سب لوگ حشر کے لیے قبروں سے نکل کر پکارنے والے کی آواز کی طرف نہایت تیزی کے ساتھ سر اٹھائے ہوئے دوڑتے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ ﴾ [إبراہیم : ۴۳ ] ’’اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے۔‘‘ اس کی طرف جانے میں کوئی کجی نہ ہو گی، یعنی تیر کی طرح سیدھے جائیں گے اور ذرہ بھر ادھر ادھر نہ ہوں گے۔ اس حالت کا نقشہ سورۂ ابراہیم (۴۲، ۴۳)، سورۂ قمر (۶ تا ۸) اور سورۂ قٓ (۴۱، ۴۲) میں دیکھیے۔ ’’لَا عِوَجَ لَهٗ ‘‘ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ پکارنے والے کی پکار میں کوئی کجی نہ ہو گی کہ کسی تک پہنچے اور کسی تک نہ پہنچے، ہر شخص تک سیدھی پہنچے گی۔ وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ....: یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے دوڑنے اور اکٹھے ہونے پر کوئی شور و غل نہ ہو گا۔ سب آوازیں رحمان کے لیے پست ہو جائیں گی۔ ’’رحمان‘‘ کے لیے پست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بے حد رحم والے رب کی رحمت اور اس کے کرم کی طلب میں سب عاجزی سے خاموش ہوں گے۔ ’’ هَمْسًا ‘‘ ہلکی سے ہلکی آواز یا قدموں کی ہلکی سے ہلکی آہٹ، کھسکھساہٹ۔