نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا
یہ (اس دن) جیسی جیسی باتیں کریں گے ہم اس سے بے خبر نہیں، ان میں جو سب سے بہتر سراغ پر ہوگا وہ بول اٹھے گا، نہیں ہم بہت رہے ہوں گے تو بس ایک دن (اس سے زیادہ یہ مدت نہیں ہوسکتی)
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ....: ’’اَمْثَلُ‘‘ بمعنی ’’أَفْضَلُ‘‘ہے۔ ’’ اَلْمَثَالَةُ ‘‘ یعنی ’’اَلْفَضْلُ۔‘‘ ’’ طَرِيْقَةً ‘‘ سب سے اچھے طریقے والا سے مراد یہاں سب سے اچھی رائے والا ہے۔ اسے زیادہ اچھی رائے والا اور عقل مند اس لیے فرمایا کہ اس نے دنیا کے عارضی اور ختم ہونے کو اور آخرت کے ہمیشہ اور باقی رہنے کو دوسروں سے زیادہ سمجھا، اس لیے اس نے کہا کہ دس راتیں کہاں، تم تو ایک دن سے زیادہ دنیا میں نہیں ٹھہرے۔ طبری نے فرمایا کہ قیامت کی ہولناکی انھیں دنیا کا عیش و عشرت ایسا بھلائے گی کہ وہ دنیا میں رہنے کی صحیح مدت بھی نہیں بتا سکیں گے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۱۲ تا ۱۱۴) اور روم (۵۵)۔