حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو
1۔ حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى:شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’درمیانی نماز عصر ہے کہ دن اور رات کے درمیان میں ہے اور اس کی پابندی پر زیادہ زور دیا اور طلاق کے حکموں میں نماز کا ذکر فرما دیا کہ دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر عبادت کو نہ بھول جاؤ۔ عصر کی پابندی کا حکم اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت دنیا کا شغل زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ (موضح) 2۔ حفاظت سے مراد وقت کا خیال رکھنا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا:’’تمام اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ [بخاری، الصلاۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتہا:۵۲۷] 3۔ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى:اس کے متعلق گو اختلاف ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے۔ یہی صحیح اور راجح ہے، متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری، مسلم اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا:((شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی صَلاَۃِ الْعَصْرِ مَلَأَ اللّٰہُ بُیُوْتَہُمْ وَ قُبُوْرَہُمْ نَارًا)) [ مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن....:۲۰۵؍۶۲۷۔ بخاری:۶۳۹۶] ’’ انھوں نے ہمیں صلاۃ الوسطی یعنی عصر کی نماز سے روک دیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھرے۔‘‘ بہت سے صحابہ کے آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی گویا اس کا اہل و عیال اور مال لوٹ لیا گیا۔‘‘ [بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر:۵۵۲۔ مسلم:۶۲۶] 4۔ قٰنِتِيْنَ:فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو، یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے معلوم ہو کہ آدمی نماز کی حالت میں نہیں ہے، جیسے کھانا پینا اور کسی سے بات کرنا۔ عربی زبان میں قنوت کے کئی معانی آتے ہیں، مگر یہاں مراد سکوت (خاموشی) ہے۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ہم نماز میں ایک دوسرے سے بات کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے ( جو نماز میں ہوتا) اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:﴿حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ﴾ تو ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور باتیں کرنے سے منع کر دیا گیا۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب ﴿و قوموا للّٰہَ.....﴾:۴۵۳۴۔ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام:۵۳۹]