إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ
وہ تو اس لیے نازل ہوا ہے کہ جو دل (انکار و بدعملی کے نتائج سے) ڈرنے والا ہے، اس کے لیے نصیحت ہو (جو ڈرنے والے نہیں وہ کبھی اس کی صداؤں پر کان نہیں دھریں گے)
اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى : ’’ اِلَّا ‘‘کے ساتھ استثنا منقطع ہے، کیونکہ’’ تَذْكِرَةً ‘‘شقاوت میں شامل نہیں ہے، لہٰذا یہاں’’ اِلَّا ‘‘ بمعنی ’’ لٰكِنَّ ‘‘ہے، چنانچہ یہاں اس کا ترجمہ ’’بلکہ‘‘ کیا گیا ہے اور یہ جو فرمایا کہ اس قرآن کو اس شخص کی نصیحت کے لیے اتارا جو ڈرتا ہے، اس سے مراد یہ نہیں کہ قرآن دوسرے لوگوں کی نصیحت کے لیے نہیں اترا، کیونکہ قرآن بلکہ پورا دین ہر انس و جن تک پہنچانے کے لیے اتارا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ [المائدۃ : ۶۷ ] ’’اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (دیکھیے سبا : ۲۸) بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، جسے اللہ اور آخرت کا ڈر نہیں اسے صحیح راستے پر ڈال دینا آپ کے ذمے نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى (10) وَ يَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى ﴾ [الأعلٰی : ۱۰، ۱۱ ] ’’عنقریب نصیحت حاصل کرے گا جو ڈرتا ہے اور اس سے علیحدہ رہے گا جو سب سے بڑا بدنصیب ہے۔‘‘ علاوہ ازیں دیکھیے سورۂ بقرہ (۱ تا ۵)، سورۂ ق (۴۵) اور نازعات (۴۵)۔