سورة مريم - آیت 97

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اسی غرض سے ہم نے قرآن تیری زبان (عربی) میں اتار کر آسان کردیا کہ متقی انسانوں کو (کامیابی کی) خوشخبری دے دے اور جو گروہ سچائی کے مقابلہ میں ہٹ کرنے والا اور اڑ جانے والا ہے اسے (انکار و سرکشی کے نتیجہ سے) خبردار کردے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ....: یہ ساری سورت بلکہ پورا قرآن متقین کو خوش خبری اور منکرین کو ڈرانے کے لیے ہے۔ اس آیت سے پہلی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی اولاد بتانے والوں کی تردید اور ان کا انجام بد مذکور ہے اور ایمان اور عمل صالح والوں کو حصول محبت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے قرآن مجید میں تین خوبیاں رکھنے کا ذکر فرمایا، تاکہ بشارت و نذارت بہترین طریقے سے ہو سکے۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسان کر دیا ہے اور اللہ کی آسان کی ہوئی چیز سے زیادہ آسان کیا چیز ہو گی۔ دیکھیے سورۂ قمر (۱۷) دوسری یہ کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ’’عربی‘‘ میں اتارا جس سے زیادہ بات واضح کرنے کی خوبی کسی زبان میں نہیں اور جس کے اولین مخاطب یہ زبان بولنے والے تھے، جو اس زبان کے باریک سے باریک اشاروں کو بھی سمجھتے تھے۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۱۹۲ تا ۱۹۵)، یوسف (۱، ۲)، زخرف (۱ تا ۳) اور نحل (۱۰۳)۔ تیسری یہ کہ اس کے ساتھ خوش خبری دینے اور ڈرانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دے کر بھیجا گیا جو خود اہل عرب سے تھے، تاکہ وہ اسے پڑھ کر سنائیں اور عمل کر کے دکھائیں۔ دیکھیے سورۂ نحل(۴۴) پہلی خوبی لفظ ’’يَسَّرْنٰهُ ‘‘ میں، دوسری ’’بِلِسَانِكَ ‘‘ میں اور تیسری ’’ تُنْذِرَ بِهٖ ‘‘ اور ’’ تُنْذِرَ بِهٖ ‘‘ کے صیغہ خطاب میں بیان ہوئی ہے۔ ’’ لُّدًّا ‘‘’’أَلَدُّ ‘‘ کی جمع ہے، سخت جھگڑالو اور ضدی شخص، جو کسی طرح حق بات کو نہ مانے۔ اس سے مراد قریش اور دوسرے معاند کفار ہیں۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۵۷، ۵۸)۔