وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جن عورتوں کو ان کے شوہروں) نے طلاق دے دی ہو تو انہیں چاہیے ماہواری ایام کے تین مہینوں تک اپنے ٓپ کو (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں۔ اور اگر وہ اللہ پر اور ٓخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، تو ان کے لیے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کردی ہو، اسے چھپائیں (یعنی اگر حمل سے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ اسے ظاہر کردیں) اور ان کے شوہر (جنہوں نے طلاق دی ہے) اگر عدت کے اس مقررہ زمانے کے اندر اصلاح حال پر ٓمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اور دیکھو، عورتوں کے لیے بھی اسی طرح کے حقوق مردوں پر ہیں۔ جس طرح کے حقق مردوں کے عورتوں پر ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک خاص درجہ دیا گیا ہے۔ اور یاد رکھو اللہ زبردست حکمت رکھنے والا ہے
1۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ فوراً اس سے جدا نہیں ہوتی، بلکہ اسے کچھ مدت انتظار میں گزارنا ہو گی جس کے اندر خاوند اس سے رجوع کر سکتا ہے اور اس مدت کے گزرنے کے بعد عورت آزاد ہے، جس سے چاہے نکاح کر لے۔ اس مدت کو عدت کہتے ہیں۔ 2۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند جماع کے بعد اپنی عورت کو طلاق دے اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کے لیے عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہے تو حمل سے فارغ ہونا۔ (دیکھیے طلاق:۴) اور اگر جماع سے پہلے ہی طلاق ہو جائے تو اس پر کوئی عدت نہیں۔ (دیکھیے احزاب:۴۹) پس اس آیت میں لفظ ”الْمُطَلَّقٰتُ“ (وہ عورتیں جنھیں طلاق دی جائے) سے ان عورتوں کی عدت بیان کرنا مقصود ہے جن سے خاوند صحبت کر چکے ہوں اور وہ حاملہ نہ ہوں، نہ ہی ایسی ہوں جنھیں حیض نہیں آتا، نہ لونڈیاں ہوں۔ تو ان کی عدت تین ”قروء“ ہے۔ ”قُرُوْٓءٍ “ کا لفظ جمع ہے اس کا واحد ”قُرْءٌ“ ہے اور یہ حیض کے ایام پر بھی بولا جاتا ہے اور طہر (یعنی حیض سے پاک ہونے) کے ایام پر بھی۔ بندہ کی تحقیق میں حیض والا معنی راجح ہے۔ مزید مسائل کے لیے دیکھیے سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات۔ 3۔ اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہاکا بیان ہے کہ پہلے مطلقہ عورت کے لیے کوئی عدت نہیں تھی(خاوند جب چاہتا رجوع کر لیتا) تو جب مجھے طلاق ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا۔ [ أبو داؤد، الطلاق، باب فی عدۃ المطلقۃ :۲۲۸۱، وسندہ حسن ] 4۔ وَ لَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ....:یعنی عورتوں کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے رحم میں جو کچھ ہے یعنی حمل یا حیض یا طہر، اسے چھپائیں اور غلط بیانی کریں، کیونکہ عدت اس پر موقوف ہے۔ حمل چھپانے کی صورت میں کسی کا بچہ دوسرے کے نام لگ جائے گا اور حیض چھپانے کی صورت میں اصل عدت سے پہلے یا بعد فارغ ہو گی، اس میں حرام کے ارتکاب کا امکان ہے۔ 5۔ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ:یعنی عدت کے اندر اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو عورت کو لازماً ماننا ہو گا۔ (ابن کثیر) 6۔ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ:یعنی عورتوں کا بھی معروف طریقے کے مطابق مردوں پر ویسا ہی حق ہے جیسا کہ مردوں کا عورتوں پر ہے، جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’تمہارا ان(عورتوں) پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس کو نہ بیٹھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور اگر وہ ایسا کریں تو انھیں مارو، ایسا مارنا جو شدید نہ ہو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ انھیں دستور کے مطابق کھانا اور لباس دو۔‘‘[ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۱۲۱۸ ] 7۔ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ:یعنی مرتبہ میں، اطاعت کا حق رکھنے میں، خرچ کرنے میں، فطری قوتوں میں، میراث میں، خصوصاً ان آیات میں مذکور طلاق و رجوع کا حق رکھنے میں، الغرض دین و دنیا کے بہت سے شرف عورت پر ان کی برتری کا باعث ہیں۔ سورۂ نساء میں ہے:﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾ [ النساء:۳۴ ] ’’مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔‘‘