إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(برخلاف اس کے) جو لوگ ایمان لائے (اور راہ ایمان میں ثابت قدم رہے) اور جن لوگ نے وطن سے بے وطن ہونے کی سختیاں برداشت کیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی (سچی) امیدواری کرنے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی رحمت کا سچے طریقہ پر امیدوار ہو تو) اللہ (بھی) رحمت سے بخش دینے والا ہے
1۔ هَاجَرُوْا:’’هَجَرَ يَهْجُرُ(ن) ‘‘ کا معنی کسی سے دل یا زبان یا بدن کے ساتھ جدا ہو جانا ہے اور ”هَاجَرُوْا“ اس میں سے باب مفاعلہ ہے، جس میں مبالغہ مقصود ہے، یعنی ’’کسی سے قطع تعلق کرکے الگ ہو جانا‘‘ مراد دار الکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں آ جانا ہے۔ (مفردات) 2۔ جٰهَدُوْا:’’جَهَدَ يَجْهَدُ (ف)‘‘ کا مطلب ہے ’’کسی کام میں کوشش کرنا۔‘‘ ”جَاهَدَ مُجَاهَدَةً وَجِهَادًا“ کا معنی ہے ’’دشمن سے لڑنا۔‘‘(القاموس) ’’جَهَدَ‘‘ سے باب مفاعلہ کی وجہ سے اس کا معنی اپنی ساری کوشش صرف کرنا ہے۔ اس لیے اصحاب لغت نے اس کا معنی ’’لڑنا‘‘ کیا ہے کیونکہ کوشش کی انتہا یہی ہے۔ 3۔ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ:یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد ایسے اعمال ہیں جن کے نتیجے میں دل کے اندر اللہ کی رحمت کی امید پیدا ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا دامن ان سے خالی ہے وہ لاکھ اللہ کی رحمت کی امید کا دعویٰ کریں، حقیقت میں ان کے دل کے اندر رحمت کی امید پیدا نہیں ہوتی: جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں اس میں ان مجاہدوں کے لیے بشارت ہے جن کا ذکر حرمت والے مہینوں میں حملہ کرنے کے ضمن میں آیا ہے۔