سورة الكهف - آیت 51

مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

میں نے انہیں اپنے ساتھ شریک نہیں کیا تھا جب آسمان و زمین کو پیدا کیا اور نہ اس وقت وہ شریک ہوئے جب خود انہیں پیدا کیا (اور جب وہ خود مخلوق ہیں تو اپنی خلقت کے وقت کیسے موجود ہوسکتے تھے؟) میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ ....: اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل جو قرآن میں بیان فرمائی ہے اور بار بار بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق میں ہوں، میرے سوا کوئی مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا تو پھر میری بندگی اور دوستی چھوڑ کر مخلوق کی بندگی اور دوستی کیوں؟ مثلاً دیکھیے سورۂ نحل (۱۷)، رعد (۱۶)، لقمان (۱۱)، فاطر (۴۰) اور احقاف (۴) وغیرہ۔ اس آیت میں فرمایا کہ جب میں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تو ان شیاطین کا کوئی وجود نہ تھا کہ وہ ان کے بنانے میں میرے شریک ہوتے اور نہ میں نے انھیں ان کی اپنی پیدائش میں شریک کیا۔ مطلب یہ کہ یہ خود میرے پیدا کردہ ہیں، پھر یہ میرے شریک اور تمھاری بندگی اور اطاعت کے مستحق کیسے بن گئے؟ اور مخلوق خالق کی ہمسر کیسے بن گئی؟ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا : یعنی نہ میں نے کسی بھی مخلوق سے پیدا کرنے میں کوئی مشورہ یا مدد لی اور نہ میں کبھی اس طرح کے شریروں اور نافرمانوں کو، جن کا کام دوسروں کو گمراہ کرنا اور شرارت پھیلانا ہے، اپنا بازو، یعنی مددگار بنانے والا تھا۔ میں نے کسی کی بھی مدد یا مشورے کے بغیر اپنی مرضی کے مطابق ساری مخلوق پیدا کی۔ گویا ’’ الْمُضِلِّيْنَ ‘‘ پر الف لام عہد کا ہے، مراد شیطان اور اس کی اولاد ہے۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ سبا (۲۲، ۲۳)۔