وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَٰذِهِ أَبَدًا
پھر وہ (یہ باتیں کرتے ہوئے) اپنے باغ میں گیا اور وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر رہا تھا، اس نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ ایسا شاداب باغ کبھی ویران ہسکتا ہے۔
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ....: اپنی جان پر ظلم کرنے والا اس لیے کہ اس نے تین باتیں کہیں جو تینوں کفر ہیں، اگرچہ وہ رب تعالیٰ کے وجود کو مانتا تھا، جیسا کہ ’’ وَ لَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ ‘‘ سے ظاہر ہے۔ پہلی یہ کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا، حالانکہ اللہ کے سوا کسی بھی چیز کو ہمیشہ سے یا ہمیشہ کے لیے باقی سمجھنا نری جہالت اور دہریت ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار اور ارادے کا انکار ہے، وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو ’’كُنْ‘‘ کہہ کر فنا کر سکتا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ میں قیامت کو قائم ہونے والی نہیں سمجھتا، حالانکہ یہ اللہ کی قدرت کا انکار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ بھی قادر ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض میں اپنے رب کی طرف دوبارہ لے جایا گیا تومجھے یہاں سے بہتر جگہ ملے گی، کیونکہ یہ میرا حق ہے۔ دیکھیے حم السجدہ (۵۰) اور سورۂ مریم (۷۷) یہ اعمال کی جزا و سزا سے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و عدل سے انکار ہے اور مذکورہ تینوں باتیں کفر ہیں۔ (مہائمی)