سورة الكهف - آیت 21

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (پھر دیکھو) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے واقف کردیا۔ (انن کی بات پوشیدہ نہ رہ سکی) اور اس لیے واقف کردیا کہ لوگ جان لیں اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، اسی وقت کی بات ہے کہ لوگ آپس میں بحث کرنے لگے ان لوگوں کے معاملہ میں کیا کیا جائے لوگوں نے کہا، اس غار پر ایک عمارت بنا کو (کہ یادگار رہے اس سے زیادہ اس معاملہ کے پیچھے نہ پڑو) ان پر جو کچھ گزری ان کا پروردگار ہی اسے بہتر جانتا ہے، تب ان لوگوں نے کہ معاملات پر غالب آگئے تھے کہا ٹھیک ہے، ہم ضرور ان کے مرقد پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ ....: یعنی جس طرح ہم نے انھیں ثابت قدم رکھا اور حیرت انگیز طریقے سے سلائے رکھا اسی طرح ہم نے شہر والوں کو ان کی حقیقت حال اور جگہ سے مطلع کر دیا۔ بہت سے مفسرین کا بیان ہے اور واقعہ کی صورت خود بخود بھی یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ شہر کے راستے، لوگوں کی تہذیب، رہن سہن، زبان اور لباس ہر چیز بدل چکی ہے، اس نے خیال کیا کہ شاید میں پاگل ہو گیا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالآخر وہ شہر پہنچا اور ایک دکاندار سے کھانا خریدنے لگا اور اس نے سکہ نکالا تو دکاندار ششدر رہ گیا اور اس نے ایک دوسرے دکاندار کو بلایا، بالآخر کچھ لوگ جمع ہو گئے اور انھیں شک گزرا کہ شاید اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ مگر جب اس نے بتایا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں اور کل ہی یہاں فلاں بادشاہ کو چھوڑ کر گیا ہوں تو لوگوں کی حیرت اور بڑھ گئی اور وہ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ وہاں جب پوچھ گچھ ہوئی تو سب معاملہ کھل گیا، اس لیے اصحابِ کہف کو دیکھنے اور انھیں سلام کرنے کے لیے بادشاہ اور اس کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا۔ شہر جانے والا ساتھی اندر داخل ہو گیا اور سارے ساتھی دوبارہ لیٹ گئے، اسی حال میں اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کر لی۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وہاں تین سو نو (۳۰۹) سال ٹھہرنا بیان فرمایا ہے، اگر وہ اس کے بعد بھی زندہ ہوتے تو ان پر عمارت بنانے یا مسجد بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کی کرامت دیکھنے والے خوش عقیدہ لوگ انھیں شہر لے جاتے اور ہر طرح ان کی خدمت بجا لاتے۔ 2۔ اس آیت سے کئی ساتھیوں کا مال برابر جمع کرکے کھانے وغیرہ کے لیے اکٹھا خرچ کرنا ثابت ہوتا ہے، خواہ کوئی کم کھاتا ہو یا زیادہ اور یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کسی کو اپنا نائب یا وکیل بنایا جا سکتا ہے۔ لِيَعْلَمُوْا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ....: یعنی ان پر مطلع ہونے والے شہر کے لوگوں کو یقین آ جائے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ ....: یعنی ہم نے شہر والوں کو ان پر اس وقت مطلع کیا جب وہ آپس میں اپنے معاملے میں جھگڑ رہے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مر کر جی اٹھنا برحق ہے، کوئی اس کا انکار کرتا تھا، کوئی کہتا کہ حشر صرف روح کا ہو گا بدن کا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اصحابِ کہف کا حال آنکھوں سے دکھا کر یقین دلا دیا کہ قیامت آئے گی اور حشر بدن اور روح دونوں کا ہو گا۔ ’’اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ ‘‘ کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب شہر والے اصحابِ کہف کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ یہ کون لوگ تھے؟ غار میں کب آئے؟ کتنی دیر سوئے رہے؟ اب ان کے مرنے پر ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ بعض نے کہا، ان پر دیوار بنا کر غار کا منہ بند کر دیں۔ بعض نے کہا، ان پر ایک عمارت ان کی یادگار کے طور پر بنا دیں۔ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ : یعنی اصحابِ کہف اور شہر والوں کے احوال ان کا رب بہتر جانتا ہے۔ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰى اَمْرِهِمْ ....: جن لوگوں کے پاس غلبہ و اقتدار تھا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے اور اس طرح ان کی یاد گار کو باقی رکھیں گے۔ گزشتہ قوموں میں اسی راستے سے شرک داخل ہوتا رہا اور اب بھی شرک کے سب سے بڑے مراکز انھی قبروں پر تعمیر شدہ عمارتیں مثلاً خانقاہیں وغیرہ یا مسجدیں ہی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس میں آپ فوت ہوئے : (( لَعَنَ اللّٰهُ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ )) [ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد....: ۱۳۳۰۔ مسلم : ۵۲۹ ] ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘ جندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے فوت ہونے سے پانچ دن پہلے سنا، آپ نے فرمایا : (( أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوْا يَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيْهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، إِنِّيْ أَنْهَاكُمْ عَنْ ذٰلِكَ )) [ مسلم، المساجد، باب النہي عن بناء المساجد علی القبور....: ۵۳۲] ’’جان لو! جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے، سن لو کہ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سب سے بدتر مخلوق قرار دیا، فرمایا : (( فَأُولٰئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ )) [ بخاري، الصلاۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکي الجاھلیۃ ....: ۴۲۷۔ مسلم : ۵۲۸، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ] ان احادیث میں قبروں پر مسجدیں بنانے سے مراد ان کے پاس مسجدیں بنانا ہے، کیونکہ یہود و نصاریٰ کے عبادت خانے ان کے انبیاء و اولیاء کی قبروں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ افسوس کہ بعض مسلمانوں نے یہ تکلف بھی ختم کرکے اپنے بزرگوں کی قبریں عین مسجدوں کے اندر بنانا شروع کر دیں۔ ان لوگوں کی کوئی مسجد کم ہی کسی نہ کسی قبر سے خالی نظر آئے گی، ان کے مولویوں نے اس بدترین فعل کے جواز کے لیے زیر تفسیر آیت کو دلیل بنا لیا، حالانکہ اس میں صرف یہ ذکر ہے کہ ان کے غالب اور بااثر لوگوں نے یہ کہا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے درست کہا یا غلط، اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُّجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُّقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُّبْنٰی عَلَيْهِ )) [ مسلم، الجنائز، باب النھي عن تجصیص القبر....:۹۷۰ ]’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ قبر چونا گچ (سیمنٹڈ) بنائی جائے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جائے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جائے۔‘‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ابو الہیاج الاسدی، علی رضی اللہ عنہ کے داماد فرماتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا : (( أَلاَ أَبْعَثُكَ عَلٰی مَا بَعَثَنِیْ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لاَّ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَهُ )) [ مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر : ۹۶۹ ] ’’کیا میں تمھیں اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا؟ وہ یہ ہے کہ کوئی مورتی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور نہ کوئی اونچی قبر جسے تو برابر نہ کر دے۔‘‘ اللہ کی حکمت دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبریں برابر کرنے پر اس شخص کو مقرر فرمایا جس کے نام لیواؤں نے سب سے زیادہ قبروں کو پختہ اور اونچا بنانا تھا، تاکہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔