فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
پھر اگر ایسا ہوا ہے کہ تم ڈگمگا گئے باوجودیکہ ہدایت کی روشن دلیلیں تمارے سامنے آچکی ہیں تو یاد رکھو اللہ (کے قانون جز اکی پکڑ سے تم بچ نہیں سکتے۔ وہ) سب پر غالب اور (اپنے کاموں میں) حکمت والا ہے
1۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کا سچا رسول مانتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے غیب یعنی بن دیکھی حقیقتوں پر ایمان ہے۔ حدیثِ جبریل علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنے کو ایمان کہا گیا ہے۔ [ مسلم، الإیمان:۸ ] دنیا میں آزمائش اسی بات کی ہے کہ بغیر دیکھے کون ان پر ایمان لاتا ہے اور کسی جبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:﴿لِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّخَافُهٗ بِالْغَيْبِ﴾ [ المائدۃ:۹۴ ] ’’تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۴۹)، فاطر (۱۸)، سورۂ یس (۱۱)، سورۂ ق (۳۳) اور حدید (۲۵)۔ کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ حقیقتیں ان کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی تو وہ ایمان لائیں گے، ورنہ نہیں۔ کبھی وہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے دیکھنے کا مطالبہ کرتے کہ ’’ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے۔‘‘ [ الفرقان:۲۱] کبھی ایمان لانے کی شرط یہ رکھتے کہ ’’تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔‘‘ [ بنی اسرائیل:۹۲ ] کبھی قیامت برپا کرنے کی فرمائش کرتے۔ بنی اسرائیل نے بھی یہی کام کیا، فرمایا:﴿وَ اِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً﴾ [ البقرۃ:۵۵ ] ’’اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ ! ہم ہر گز تیرا یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے سے اسلام کے حق ہونے کی دلیلیں پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اب اگر کوئی شخص حق واضح ہونے کے بعد اس پر ایمان نہیں لاتا، بس معجزات کا مطالبہ ہی کرتا چلا جاتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ غیبی حقیقتیں ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ پھر کسی کو ایمان لائے بغیر چارہ ہی نہیں ہو گا۔ چنانچہ فرمایا:﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ﴾ [ الأنعام:۱۵۸ ] ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا رب آئے یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی، کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا۔‘‘ زیر تفسیر آیات میں یہی بات فرمائی کہ اتنے واضح دلائل کے بعد اب یہی باقی رہ جاتا ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ خود بادل کے سائبانوں میں آ جائے اور فرشتے بھی، مگر پھر تو کام تمام ہو چکا ہو گا اور دنیا میں تو بظاہر کچھ اور لوگوں کے پاس بھی معاملات لے جائے جاتے ہیں، اس وقت سارے معاملات اکیلے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ 2۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے زمین پر اترنے کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا:﴿وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾ [ الفجر:۲۲ ]’’اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا:﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ﴾ [ الأنعام:۱۵۸ ] ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا رب آئے۔‘‘ تمام صحابہ اور تابعین اللہ تعالیٰ کے نزول پر ایمان رکھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے کہ وہ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، قیامت کے دن بھی زمین پر اترے گا۔ دوسری تمام صفات پر بھی وہ ان کے ظاہر الفاظ کے مطابق ایمان رکھتے تھے، وہ نہ ان کا کچھ اور مطلب نکالتے (جسے تاویل کہتے ہیں)، نہ یہ کہتے کہ کس طرح اترے گا؟ یا وہ عرش پر کس طرح ہے؟ ( جسے تکییف کہتے ہیں)، نہ وہ اس کے عرش پر ہونے کو یا اس کے اترنے کو اپنی طرح یا کسی مخلوق کی طرح قرار دیتے (جسے تشبیہ کہتے ہیں)، نہ یہ کہتے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ان الفاظ کا معنی کیا ہے، بس یہ اللہ ہی جانتا ہے (جسے تفویض کہتے ہیں)، بعد میں آنے والے لوگوں نے غیر مسلموں سے متاثر ہو کر کسی نے سرے سے ان صفات کا انکار ہی کر دیا، کسی نے تاویل کی، کسی نے اپنے پاس سے کیفیت متعین کی اور کسی نے مخلوق کے ساتھ مشابہ کر دیا۔ یہ تمام صورتیں درحقیقت انکار ہی کی صورتیں ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ حاقہ (۱۶ تا ۱۸) اور سورۂ فجر (۲۲) کے حواشی۔