قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا
(اے پیغبر) کہہ دے اگر ایسا ہوا ہوتا کہ زمین میں (انسانوں کی جگہ) فرشتے بسے ہوتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ضرور آسمان سے ایک فرشتہ پیغمبر بنا کر اتار دیتے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰٓىِٕكَةٌ ....: ’’ مُطْمَىِٕنِّيْنَ‘‘ یعنی اگرچہ فرشتے اب بھی زمین پر آتے جاتے ہیں، لیکن اگر وہ انسانوں کی طرح اطمینان سے زمین پر رہ رہے ہوتے تو ہم ان کی طرف کسی فرشتے ہی کو رسول بھیجتے، مگر جب زمین پر ہم نے انسانوں کو بسایا ہے تو ان کی طرف ایک فرشتے کو رسول بنا کر بھیجنے سے کیا فائدہ؟ رسول کا کام صرف اس پیغام کو پہنچا دینا ہی نہیں بلکہ وہ لوگوں کے لیے عملی نمونہ بھی ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کی پیروی کر سکیں۔ یہ مفہوم کہ رسول کا اپنی امت کا ہم جنس ہونا ضروری ہے، کئی آیات میں بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۷)، ابراہیم (۴) اور سورۂ انعام (۸، ۹) ۔