سورة الإسراء - آیت 80

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تیری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اے پروردگار ! مجھے (جہاں کہیں پہنچا تو) سچائی کے ساتھ پہنچا اور (جہاں کہیں سے نکال تو) سچائی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما، ایسی قوت کہ ( ہر حال میں) مددگاری کرنے والی ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ....: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ہر امتی کو یہ دعا سکھائی کہ اے میرے رب! تو مجھے دنیا و آخرت میں جس جگہ بھی داخل کرے باعزت اور آبرو مندانہ طریقے سے داخل کر اور جس جگہ سے بھی نکالے باعزت طریقے سے نکال اور میرے لیے دلیل و برہان کے ساتھ قوت و سلطنت کا ایسا غلبہ عطا فرما جو میرا مددگار ہو۔ دلیل کے غلبے کے لیے دعوت اور سلطنت کے غلبے کے لیے جہاد ضروری ہے، جس کا پہلا قدم دار الکفر سے ہجرت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم دیا گیا، چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آپ آبرو مندانہ طور پر مدینہ وارد ہوئے، انصار سے اور مہاجرین سے دین کی مدد بھی ہوئی۔ 2۔ ’’سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ‘‘ سے اس آیت میں مراد قوت و سلطنت کا غلبہ ہے، کیونکہ دلیل و برہان میں تو آپ مکہ میں بھی ہر وقت غالب تھے۔ کوئی شخص سورۂ کوثر جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکا تھا، اب عناد اور ضد سے اکڑی ہوئی گردنوں کے لیے جہاد کی ضرورت تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ ساتھ لوہا بھی نازل فرمایا۔ دیکھیے سورۂ حدید (۲۵) کی تفسیر۔ اہل حق کے لیے حق سے دشمنی رکھنے والوں پر غلبہ حاصل کرنا فرض ہے، تب ہی وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر سکتے ہیں اور اپنی سلطنت ہی میں وہ پورے اسلام پر عمل کر سکتے ہیں جو اب صرف مسجد، نکاح اور جنازے وغیرہ تک رہ گیا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا : ’’إِنَّ اللّٰهَ لَيَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَا لَا يَزَعُ بِالْقُرْآنِ ‘‘ ’’اللہ تعالیٰ سلطان کے ذریعے سے ان فواحش اور گناہوں سے روک دیتا ہے جن کے ارتکاب سے بہت سے لوگ قرآن سننے کے باوجود باز نہیں آتے۔‘‘