سورة الإسراء - آیت 58

وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور روز قیامت سے پہلے ضرور ایسا ہونے والا ہے کہ (نافرمانوں کی) جتنی بستیاں ہیں ہم انہیں ہلاک کردیں یا عذاب سخت میں مبتلا کردیں۔ یہ بات (قانون الہی کے) نوشتہ میں لکھی جاچکی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا ....: ـ ابن کثیر رحمہ اللہ اور کئی مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں شروع سے لکھ دیا ہے کہ ہر بستی جو ظلم پر اتر آئے، قیامت سے پہلے یا تو ہم اسے ہلاک کر دینے والے ہیں کہ اس کے تمام رہنے والوں کو تباہ و برباد کر دیں، یا انھیں سخت عذاب دینے والے ہیں، باہمی قتل و غارت کے ساتھ، یا دشمن کے حملے سے، یا جس مصیبت سے ہم چاہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اقوام کا ذکر فرمایا، سورۂ طلاق میں ہے : ﴿وَ كَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا ﴾ [ الطلاق : ۸، ۹ ] ’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا، بہت سخت محاسبہ اور انھیں ایسی سزا دی جو دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ تو انھوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام خسارہ تھا۔‘‘ سورۂ ہود میں ہے : ﴿وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِيَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَهٗ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ﴾ [ ھود : ۱۰۲ ] ’’اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو اس حال میں پکڑتا ہے کہ وہ ظالم ہوتی ہیں، بلاشبہ اس کی پکڑ بڑی دردناک، نہایت سخت ہے۔‘‘ دوسرے مفسرین نے اس کی تفسیر اور طرح سے کی ہے، ان میں صاحب روح المعانی بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں ’’ وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ‘‘ (جو بھی بستی ہے) سے مراد ظاہر ہے کہ عام ہے، کیونکہ ’’ اِنْ ‘‘ نافیہ ہے اور ’’ مِنْ ‘‘ تمام بستیوں کو شامل کرنے کے لیے ہے، خواہ مومنوں کی ہوں یا کفار کی اور مطلب یہ ہے کہ بستیوں میں سے جو بھی بستی ہے ہم قیامت سے پہلے اسے یا تو اس کے رہنے والوں کی طبعی موت کے ساتھ ویران کر دینے والے ہیں، یا اسے قتل اور مختلف مصائب کے ساتھ سخت عذاب دینے والے ہیں، نیکوں کے لیے ہلاکت اور بروں کے لیے عذاب۔ پہلی تفسیر زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد کفار اور ظالموں کی بستیاں ہیں، کیونکہ بہت سی آیات اس کی تائید کرتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ ﴾ [ القصص : ۵۹ ] ’’اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر اس صورت میں کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۳۱ ] ’’یہ اس لیے کہ بے شک تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، جبکہ اس کے رہنے والے بے خبر ہوں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ﴾ [ ھود : ۱۱۷ ] ’’اور تیرا رب ایسا نہ تھا کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے، اس حال میں کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں۔‘‘ آیت سے مقصود کفار اور ظالموں کو ان کے انجام بد سے ڈرانا ہے کہ خواہ تم کتنے ہی امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تم پر ہماری گرفت ضرور آنے والی ہے۔ آیت میں ان نشانیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔