أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں، (اور اللہ کے حضور انہیں وسیلہ تقریب سمجھتے ہیں) وہ تو خود اپنے پروردگار کے حضور (بندگی و اطاعت کے ذڑیعہ سے) وسیلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے۔ نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں، فی الحقیقت تمہارے پروردگار کا عذاب بڑے ہی ڈرنے کی چیز ہے۔
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ ....: ’’ الْوَسِيْلَةَ ‘‘ ’’ قُرْبٌ ‘‘ (قریب ہونا) وسیلہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۳۵) یعنی وہ تمام لوگ جنھیں یہ مشرک پکارتے ہیں، مثلاً فرشتے، انبیاء اور صلحاء وغیرہ وہ خود اپنے رب کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی ان میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ قرب رکھنے والے ہیں (وہ اس کا قرب مزید چاہتے ہیں) اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، تو جب وہ سب لوگ جنھیں مشرکین مدد کے لیے پکارتے ہیں، وہ خود اللہ کے زیادہ سے زیادہ قرب کے متلاشی ہیں اور اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، تو پھر انھیں پکارنے کا اور ان سے مدد مانگنے کا کیا فائدہ۔ وہ جس کا قرب چاہتے اور جس کی رحمت کے امیدوار اور جس کے عذاب سے ڈرتے ہیں تم بھی اسی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرو، اسی کی رحمت کی امید رکھو اور اسی کے عذاب سے ڈرو۔ افسوس کہ آج کل کے مسلمان بھی اولیاء و صلحائے امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے اور اسی طرح ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں جو عقیدہ مشرکین اپنے بتوں کے متعلق رکھتے تھے اور جس طرح وہ اپنے بتوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے، یا یہ سمجھ کر انھیں پکارتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مشکل حل کروا سکتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ یونس (۱۸) اور سورۂ زمر (۳) اور نام اس کا وسیلہ رکھتے ہیں، جب کہ حقیقی وسیلہ سے ان اعمال کا کوئی تعلق نہیں، یہ اعمال تو صریح شرک ہیں۔ قرآن و سنت میں مذکور وسیلہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کے ذریعے سے اس کا تقرب حاصل کرنا ہے۔