سورة الإسراء - آیت 44

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے سب اس کی پاکی و کبریائی کا زمزمہ بلند کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج نہ ہو، مگر تم ان کی زمزمہ سنجیاں سمجھتے نہیں، بلاشبہ وہ بڑا ہی بردبار ہے بڑا ہی بخشنے والا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سُبْحٰنَهٗ ....: زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ’’سَبَحَ يَسْبَحُ‘‘ (ف) کا معنی پانی یا ہوا میں تیزی سے چلنا ہے۔ ’’سَبَحَ سَبْحًا وَسِبَاحَةً‘‘ ستاروں کا افلاک میں تیز چلنا، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ﴾ [ یٰسٓ : ۴۰ ] ’’اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔‘‘ گھوڑے کا تیز چلنا، فرمایا : ﴿وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا﴾ [النازعات : ۳ ] البتہ باب تفعیل ’’اَلتَّسْبِيْحُ‘‘ کا معنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ، یعنی اسے ہر عیب اور کمی سے پاک قرار دینا ہے۔ اصل اس کا بھی اطاعت، عبادت اور پاکیزگی بیان کرنے میں مستعدی و تیزی دکھانا ہے۔ (ملخص از راغب) بعض مفسرین نے کہا، مراد یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں زبانِ حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہیں، یعنی ان کی حالت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انھیں بنانے والا ہر قسم کے عیب سے یا عاجز ہونے سے پاک ہے۔ مگر اس تاویل کی ضرورت تب ہے کہ یہ تمام چیزیں اپنی زبان سے تسبیح نہ کر سکتی ہوں، حالانکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ہر چیز میں ادراک اور سمجھ موجود ہے اور اسے اپنی عبادت اور تسبیح کا طریقہ بھی معلوم ہے، لیکن ان کی اپنی زبان ہے جسے ہم نہیں سمجھتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں موجود ہر شخص اور پر پھیلاتے ہوئے پرندوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : ﴿كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ ﴾ [ النور : ۴۱ ] ’’ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ (18) وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً كُلٌّ لَّهٗ اَوَّابٌ ﴾ [ صٓ : ۱۸، ۱۹] ’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کر دیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی، جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوتے، سب اس کے لیے رجوع کرنے والے تھے۔‘‘ داؤد اور سلیمان علیھما السلام کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی بھی سکھا دی تھی۔ (دیکھیے نمل : ۱۶) بلکہ چیونٹیوں اور پرندوں کے ساتھ ان کی گفتگو بھی سورۂ نمل (۱۷ تا ۲۸) میں ذکر فرمائی۔ اس مقام پر بھی فرمایا : ’’اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ مراد زبان حال سے تسبیح نہیں، کیونکہ یہ زبان تو ہر شخص سمجھتا ہے اور فی الواقع کائنات کے ہر ذرے کی حالت اپنے پیدا کرنے والے کی لا محدود قدرت کی اور اس کے ہر کمزوری اور ہر عیب سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ اس لیے یہاں ہر چیز کا صرف اپنی زبان حال ہی سے نہیں بلکہ اپنی زبان قال سے بھی تسبیح کرنا مراد ہے اور یہ کچھ بعید نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ )) [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۵۷۹ ] ’’ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔‘‘ جمادات و نباتات کے سمجھ رکھنے، محبت اور بغض رکھنے اور تسبیح کے مزید واقعات کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۷۴)۔ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا : اسی لیے وہ تمھاری سب گستاخیاں اور نافرمانیاں دیکھتا ہے، مگر قدرت رکھنے کے باوجود تم سے درگزر فرماتا ہے اور تم پر کوئی عذاب نہیں بھیجتا، بلکہ نہ تمھارا رزق بند کرتا ہے اور نہ تمھیں اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اگر اس کا حد سے بڑھا ہوا یہ حلم اور پردہ پوشی نہ ہوتی تو تمھارا کام کب کا تمام ہو چکا ہوتا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۶۱) اور سورۂ فاطر (۴۵)۔