قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا
(اے پیغمبر) تم کہہ دو، اگر اللہ کے ساتھ اور بہت سے معبود ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس صورت میں ضروری تھا کہ وہ فورا صاحب تخت ہستی تک (مقابلہ کی) راہ نکال لیتے (اور کارخانہ ہستی میں فساد پڑجاتا۔
1۔ قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗ اٰلِهَةٌ ....: یعنی اس سے لڑنے اور اس کا تخت الٹ دینے کے لیے جاتے، کیونکہ وہ بھی اپنے کو معبود سمجھتے ہوتے اور جب ایسا نہیں ہوا اور تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کا نظام خالص اپنی مرضی سے چلا رہا ہے اور یہ نظام اپنی پوری ہم آہنگی اور تناسب سے چل رہا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے مقابلے میں تم نے جتنی زندہ یا مردہ ہستیوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، وہ سب باطل و بے حقیقت چیزیں ہیں۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۹۱، ۹۲) اور انبیاء (۲۲)۔ 2۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عرش پر ہونا صرف رب تعالیٰ کی صفت ہے، کوئی بھی مخلوق عرش پر نہیں جا سکتی، جو لوگ بیان کرتے ہیں کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر گئے ان کی بات درست نہیں، کیونکہ یہ آیت اس کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی شخصیت کے عرش پر جانے کی کوئی دلیل ثابت نہیں۔ رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں؟ اس کی بحث سورۂ نجم کے شروع میں آئے گی۔ (ان شاء اللہ)