كُلُّ ذَٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا
ان ساری باتوں کا یہ حال ہے کہ ان کی برائی تمہارے پروردگار کے نزدیک بڑی ہی ناپسندیدہ ہے۔
1۔ كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهٗ ....: ’’ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ‘‘ سے لے کر ’’وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا ‘‘ تک پچیس چیزیں بیان فرمائی ہیں، جن میں سے بعض کا حکم دیا گیا ہے اور بعض سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں ’’سَيِّئٌ‘‘ (بری) وہ ہیں جن سے منع کیا گیا ہے اور وہ چیزیں جن پر عمل کا حکم ہے انھیں بجا نہ لانا بھی ’’سَيِّئٌ‘‘ (برا) ہے۔ ان تمام چیزوں میں سے جو بری ہیں وہ ہمیشہ سے اللہ کے ہاں مکروہ (ناپسندیدہ) ہیں۔ ہمیشگی کا مفہوم ’’ كَانَ ‘‘ اد اکر رہا ہے۔ 2۔ مَكْرُوْهًا : مکروہ کا لفظ فقہاء کی اصطلاح میں حرام سے کم تر درجے کا ہے، یعنی جس کا نہ کرنا اس کے کرنے سے بہتر ہو مگر قرآن و سنت کی اصطلاح میں مکروہ کا لفظ اکثر حرام کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ ان آیات میں منع کردہ تمام چیزیں حرام ہیں، فقہی اصطلاح والی مکروہ نہیں ہیں۔ اس لیے صحیح بخاری اور ترمذی وغیرہ میں باب قائم کرتے وقت لفظ کراہیت لکھا جاتا ہے مگر مراد اس سے حرمت ہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کتاب و سنت میں مکروہ کا لفظ فقہاء والے مکروہ کے معنی میں آتا ہے، مگر اکثر مقامات پر مکروہ کا لفظ حرام ہی کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر تمام آیات میں ہے۔