فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو چاہیے کہ جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کی بڑائیوں کا ذکر کیا کرتے تھے اب اسی طرح اللہ کا ذکر کیا کرو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ (کہ تمام اعمال حج سے اصل مقصود یہی ہے) اور پھر (دیکھو) کچھ لوگ تو ایسے ہیں (جو صرف دنیا ہی کے پجاری ہوتے ہیں اور) جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ خدایا ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا
1۔ اسلام سےپہلےعرب حج سےفارغ ہوتے تو منیٰ میں میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کا خوب تذکرہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح ذکرِ الٰہی کیا کرو، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ (فتح القدیر) 2۔ ذکر الٰہی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں، ایسے لوگ آخرت کی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے (دیکھیے الشوریٰ:۲۰) اور دوسرے وہ جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں، اصل کامیابی انھی لوگوں کی ہے۔ (رازی، شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں نیک بیوی، دنیا میں غلبہ، خلافتِ اسلامی کا قیام، وسعتِ رزق، دین و دنیا کا علم اور اللہ کے احکام کے مطابق چلنے کی توفیق، الغرض سب نیک اعمال شامل ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات، جنت، رضائے الٰہی کا حصول، حساب میں آسانی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار وغیرہ شامل ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اکثر دعا یہ تھی:((اَللَّہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ)) ’’اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ [ بخاری، الدعوات ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:ربنا آتنا…:۶۳۸۹۔ مسلم:۲۶۹۰] صحیح مسلم میں ہے:’’انس رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی دعا کرنا چاہتے تو یہ (مذکورہ بالا) دعا کرتے اور جب کوئی اور دعا کرنا چاہتے تو اس میں یہ دعا بھی کرتے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے، کئی ایک احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بھی یہ دعا مسنون ہے۔ [أبو داؤد، المناسک، باب الدعاء فی الطواف، ۱۸۹۲ و قال الألبانی حسن] اللہ تعالیٰ نے یہاں دو قسم کے لوگ ذکر فرمائے ہیں، صرف دنیا کی بھلائی طلب کرنے والے اور دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرنے والے، تیسری قسم کے لوگ یعنی صرف آخرت کی بھلائی طلب کرنے والے، جو دنیا کی بھلائی نہ مانگتے ہوں وہ ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ اسلام ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کے لیے دنیا ترک کرنا پسند نہیں کرتا، نہ دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی کی اجازت دیتا ہے۔ جب سے مسلمانوں میں ہندو سادھوؤں اور نصرانی راہبوں کی تقلید میں دنیا کے ترک کا رجحان پیدا ہوا تو انھوں نے جہاد چھوڑا، دنیاوی علوم سے کنارہ کش ہوئے اور ہر چیز میں غیروں کے غلام بن گئے۔ کفار کو ان کے تصوف کے سلسلوں سے کوئی تکلیف ہے، نہ تصور شیخ سے اور نہ خانقاہی نظام سے، کیونکہ اس سے غلامی کی خُو مزید پختہ ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انھیں اپنے ملکوں میں آمد و رفت کی ہر سہولت مہیا کرتے ہیں، مگر اسلام اور مسلمانوں کی عزت کے ضامن جہاد یا خلافت کا نام لینے والوں پر آخری حد تک دنیا تنگ کر دینے میں کمی نہیں کرتے۔ پھر کیا حال ہو گا جب کہا جائے: دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے؟ اگر کہا جائے شاعر کی مراد فقط رضائے الٰہی کا حصول ہے تو اللہ کی رضا تو دنیا اور آخرت دونوں کی طلب اور ان کے لیے محنت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی ان دونوں کی طلب بلکہ ان کا ہر عمل ہی رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ ﴿ وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ یہ اس لیے فرمایا کہ آخرت میں بھلائی آگ کے کچھ عذاب کے بعد بھی ہو سکتی ہے، اس لیے اس سے بچنے کی الگ دعا مانگی۔ ( ابن عاشور )