وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
اور زنا کاری کے قریب بھی نہ جاؤ، یقین کرو وہ بڑی ہی بے حیائی کی بات اور بڑی برائی کا چلن ہے۔
1۔ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى ....:’’فَاحِشَةً ‘‘ ایسا قول و فعل جو نہایت قبیح ہو۔ پچھلی آیت میں قتلِ اولاد سے منع فرمایا، جو نسلِ انسانی فنا کرنے کا باعث ہے اور اس آیت میں زنا کے قریب جانے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ حد سے بڑھی ہوئی برائی کے ساتھ نسب کا نظام خراب کرنے کا باعث ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاوند کو نہ بیوی پر اعتماد رہے گا اور نہ اسے اولاد کے اپنا ہونے کا یقین ہو گا، وہ غیرت کی وجہ سے بیوی بچوں کو قتل بھی کر سکتا ہے، جیسا کہ اکثر خبریں آتی رہتی ہیں۔ اگر یہ رسمِ بد عام ہوجائے تو رشتہ داری کا سارا نظام، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ختم ہو جائے گا، نہ باپ کا پتا، نہ کوئی چچا نہ دادا، نہ ان کی اولاد کا علم، نہ ان سے کوئی تعلق نہ رشتہ داری، بلکہ انسان اور حیوان کا فرق ہی ختم ہو جائے گا۔ اس خبیث فعل کی سزا اس وقت مغربی اقوام بھگت رہی ہیں اور انھیں مسلمانوں کے نظام نسب پر شدید حسد ہے، جس کی وجہ سے وہ ان میں بھی بے حیائی اور زنا پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زنا اور بعض دوسرے کاموں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے اور بعض کاموں کا ارتکاب کرنے سے منع کیا ہے۔ آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کی رغبت طبعی طور پر آدمی کے دل میں ہو اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، جیسے زنا کہ جنسی جذبہ آدمی کا سب سے غالب جذبہ ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى ﴾ [ بنی إسرائیل : ۳۲ ] اور فرمایا : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى يَطْهُرْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۲۲ ] ’’اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔‘‘ اسی طرح یتیم کے مال کے قریب احسن طریقے سے جانے کے سوا منع فرما دیا، کیونکہ مال کی حرص طبعی جذبہ ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ﴾ [ بنی إسرائیل : ۳۴ ] البتہ قتل کے ارتکاب سے منع کیا، فرمایا : ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ﴾ [ بنی إسرائیل : ۳۱ ] اور فرمایا : ﴿وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ﴾ [ بنی إسرائیل : ۳۳ ] کیونکہ کسی کو قتل کرنا انسان کا طبعی تقاضا نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے تمام راستے بھی بند فرما دیے جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے : (1) اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی، اسی طرح مردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ وَلاَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلاَّ وَ مَعَهَا مَحْرَمٌ )) [ بخاری، جزاء الصید، باب حج النساء : ۱۸۶۲ ] ’’کوئی عورت سفر نہ کرے مگر کسی محرم کے ساتھ اور اس کے پاس کوئی مرد نہ جائے مگر اس صورت میں کہ اس عورت کے پاس کوئی محرم موجود ہو۔‘‘ مسلم کی اسی روایت میں ہے : (( لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ )) [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : ۱۳۴۱ ]’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔‘‘ اسی طرح عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ )) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ....: ۵۲۳۲۔ مسلم : ۲۱۷۲ ] ’’عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔‘‘ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ’’آپ ’’حَمْوٌ‘‘ (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’حمو‘‘ تو موت ہے۔‘‘ (2) مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نور (۳۰، ۳۱) کیونکہ آنکھیں اور کان دل کا دروازہ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَي ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذٰلِكَ لاَ مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ، وَ زِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّي وَتَشْتَهِيْ، وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذِٰلكَ كُلَّهُ وَ يُكَذِّبُهُ )) [ بخاری، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : ۶۲۴۳۔ مسلم: ۲۶۵۷ ] ’’اللہ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ پانے والا ہے، پس آنکھوں کا زنا ان کا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا ان کا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘ (3) عورتوں کو پردے کا حکم دیا اور زینت کے اظہار سے سخت منع فرمایا۔ دیکھیے سورۂ نور (۳۱) اور سورۂ احزاب (۳۳) اس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے نکاح کی تاکید فرمائی اور نکاح کو نہایت آسان بنا دیا، اگر وسائل مہیا نہ ہوں تو پاک دامن رہنے کی انتہائی کوشش کا حکم دیا۔ دیکھیے سورۂ نور (۳۲، ۳۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَ مَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)) [ بخاری، الصوم، باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ : ۱۹۰۵۔ مسلم : ۱۴۰۰ ] ’’تم میں سے جو شخص ضروریات نکاح رکھتا ہو وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو زیادہ نیچا رکھنے اور شرم گاہ کو (زنا سے) زیادہ محفوظ رکھنے کا والا ہے اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت کو) کچلنے کا باعث ہے۔‘‘ (4) زنا کرنے والوں پر، مرد ہوں یا عورت، انتہائی احتیاط کے ساتھ ثبوت قائم کرنے اور پوری شدت کے ساتھ حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔ کنواری اور کنوارے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی حد مقرر فرمائی، جو رجم سے بہت کم ہے اور غیر کنوارے مرد اور عورت کے لیے سو کوڑے اور رجم کی سزا مقرر فرمائی جو انتہائی سخت سزا ہے۔ اس کی واضح احادیث صحیحین وغیرہ میں معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی حد نافذ ہو تو معاشرہ اس گندگی سے بالکل پاک ہو جائے۔ 4۔ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً:’’ كَانَ ‘‘ دوام کے معنی کے لیے ہے۔ طنطاوی رحمہ اللہ نے اس جگہ ’’ كَانَ ‘‘ کو ’’مَا زَالَ‘‘ (ہمیشہ سے) کے معنی میں لیا ہے اور ’’ فَاحِشَةً ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ زنا بے حیائی میں حد سے بڑھا ہوا کام ہے جو خاندانوں، نسلوں اور معاشروں کو برباد کر دیتا ہے اور خوف ناک جسمانی اور روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ 5۔ وَ سَآءَ سَبِيْلًا : برا راستہ اس لیے ہے کہ اگر یہ کھل جائے تو اس پر چل کر لوگ آپ کے گھربھی آ پہنچیں گے، پھر کسی کی ماں، بیٹی، بیوی یا بہن کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ یہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو سمجھائی تھی جس نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی تھی۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہو جا، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اُدْنُهْ )) (میرے) قریب آ۔‘‘ وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : (( أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ )) ’’کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا :’’ نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں)۔‘‘ آپ نے فرمایا : (( وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ )) ’’تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا : (( أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ )) ’’اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ( ہر گز نہیں)۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِبَنَاتِهِمْ )) ’’لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَ فَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ )) ’’ کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ )) ’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( أَ فَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ )) ’’کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِعَمَّاتِهِمْ)) ’’ لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (( أَ فَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟)) ’’کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے( ہرگز نہیں)۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَا النَّاسُ يُحِبُّوْنَهُ لِخَالَاتِهِمْ )) ’’لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی : (( اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَ طَهِّرْ قَلْبَهُ وَ حَصِّنْ فَرْجَهُ )) ’’الٰہی! اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔‘‘ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔‘‘ [مسند أحمد :5؍256، ۲۵۷، ح : ۲۲۲۷۴ ]