وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا
اور اگر ایسا ہو کہ تم اپنے پروردگار کی مہربانی کی راہ دیکھ رہے ہو (یعنی تنگ دستی کی حالت میں ہو اور رزق کی جستجو کر رہے ہو) اور اس لیے تمہیں (ان حقداروں سے) منہ پھیرنا پڑے، تو چاہیے کہ نرمی سے انہیں سمجھا دو (سختی سے پیش نہ آؤ)
1۔ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ....: ’’ اِمَّا ‘‘ ’’ إِنْ ‘‘ اور ’’ مَا ‘‘ سے مرکب ہے، جس میں ’’مَا‘‘ ’’إِنْ ‘‘ کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’اگر کبھی‘‘ کیا گیا ہے، یعنی ذی القربیٰ، مسکین اور ابن السبیل سے اعراض (بے رخی) بخل کرتے ہوئے ہر گز جائز نہیں، صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ تمھارے پاس دینے کے لیے اس وقت کچھ نہ ہو، ہاں تمھیں اللہ کی رحمت (حلال اور وافر رزق) کے حصول کی امید ہو (جس سے نا امید ہونا کبھی جائز نہیں) تو ان سے ایسے الفاظ میں معذرت کر لو جن میں نرمی اور آسانی ہو۔ ’’ مَيْسُوْرًا ‘‘ لفظ عموماً مجہول ہی آتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ’’ يُسِرَ فُلاَنٌ فَهُوَ مَيْسُوْرٌ، عُسِرَ فُلَانٌ فَهُوَ مَعْسُوْرٌ، نُحِسَ فُلَانٌ فَهُوَ مَنْحُوْسٌ، سُعِدَ فُلاَنٌ فَهُوَ مَسْعُوْدٌ ‘‘ اس آیت کی مزید وضاحت سورۂ بقرہ (۲۶۱) میں دیکھیں اور ایسے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۹۲)۔ 2۔ مہائمی رحمہ اللہ نے اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے کہ اگر تم مذکورہ لوگوں سے اعراض اس وجہ سے کرو کہ ان سے اعراض کرنے میں تمھیں رب تعالیٰ کی رحمت کے حصول کی امید ہو، مثلاً تمھیں معلوم ہو کہ اگر اسے مال دیا تو یہ اسے نشے پر، زنا پر یا کسی گناہ پر صرف کرے گا تو تب بھی نرمی اور خوش اسلوبی سے اس سے معذرت کرو۔ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کی بھی گنجائش ہے۔