وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔
1۔ وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ....: قرابت والے سے مراد قریبی رشتے دار ہیں، ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے، محرم ہوں یا غیر محرم۔ ان کو پہلے اس لیے رکھا کہ ان کو دینے میں دو اجر ہیں، ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا صدقے کا۔ ان کا حق یہ ہے کہ ہر صورت ان سے میل جول اور تعلق قائم رکھا جائے، انھیں دین کی دعوت جاری رکھی جائے، ان کی خوشی اور غم میں شرکت کی جائے۔ جب بھی انھیں مدد کی ضرورت ہو مال و جان سے ان کی مدد کی جائے۔ مسکین اور ابن السبیل (مسافر) کی تفسیر سورۂ توبہ (۶۰) میں دیکھیں۔ 2۔ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا : ’’ تَبْذِيْرًا ‘‘ ’’بَذْرٌ ‘‘سے مشتق ہے، جس کا معنی بیج ہے، یعنی بیج کی طرح بکھیرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت دار، مسکین اور ابن السبیل کو اس کا حق دینے کے ساتھ ہی بے جا خرچ کرنے سے منع فرمایا۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جائز خرچ کرنے میں بھی میانہ روی کی تاکید فرمائی، خواہ گھر میں خرچ کرے یا صدقہ وغیرہ میں دے۔ آگے آیت (۲۹) میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ بے جا خرچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں خرچ کیا جائے (چاہے ایک پیسہ ہی ہو)، یا جائز کاموں میں بغیر سوچے سمجھے اتنا خرچ کیا جائے جو حق داروں کے حقوق ضائع کرنے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے۔