وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
ان کے آگے محبت اور مہربانی کے ساتھ عاجزی کا سر جھکائے رکھو۔ ان کے حق میں (ہمیشہ) دعا کرو کہ پروردگار ! جس طرح انہوں نے مجھے صغر سنی میں پالا پوسا اور بڑا کیا تو اسی طرح تو ببھی ان پر رحم کیجیو۔
1۔ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ : ’’ جَنَاحَ ‘‘ پرندے کے پر کو کہتے ہیں اور بازو کو بھی۔ مطلب یہ کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے اوپر اپنے پر جھکا کر انھیں اپنی آغوش میں لے کر ہر سرد و گرم سے محفوظ کر لیتا ہے اس طرح تو بھی رحم کی بنا پر تواضع کے بازو ان پر جھکا دے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق کی والدین کے حقوق کی طرح تاکید نہیں فرمائی، کیونکہ اولاد کے لیے ماں باپ کے دل میں قدرتی طور پر شفقت و محبت موجود ہوتی ہے۔ ہاں جو ظلم وہ اولاد پر کرتے تھے اس سے منع فرمایا۔ اس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت (۳۱) میں آ رہا ہے۔ 2۔ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا: معلوم ہوا کہ والدین کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرنا فرض ہے، کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس لیے روزانہ ان کی زندگی میں اور فوت ہونے کے بعد اپنی دعا کے ساتھ ان الفاظ میں یا دوسرے الفاظ میں ان کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے : ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ﴾ [ إبراہیم : ۴۱ ] ’’اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہو گا۔‘‘ الا یہ کہ ان میں سے کسی کی وفات کفر پر ہو تو مرنے کے بعد ان کے لیے استغفار جائز نہیں۔ ’’رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ‘‘ دعا میں یہ خوبی ہے کہ اس کے ساتھ دعا کرتے ہوئے والدین کے بچپن میں پرورش کا احساس ان کے لیے زیادہ اخلاص اور کوشش کے ساتھ دعا کا تقاضا کرتا ہے۔