كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا
ہم ہر فریق کو اپنی پروردگاری کی بخشائشوں سے (دنیا میں) مدد دیتے ہیں، ان کو بھی (کہ صرف دنیا ہی کے پیچھے پڑگئے) اور ان کو بھی (کہ آخرت کے طالب ہوئے اور راہ حق پر چلے) اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی بخشش عام کسی پر بند نہیں۔
كُلًّا نُّمِدُّ هٰؤُلَآءِ وَ هٰؤُلَآءِ ....: ’’ مَحْظُوْرًا ‘‘ ’’حَظَرَ يَحْظُرُ‘‘ (ن) سے اسم مفعول ہے، بمعنی روکنا، یعنی ہم مومن و کافر، نیک و بد ہر ایک کو رزق اور دنیا کی نعمتوں سے نوازتے ہیں، ایسا نہیں کہ گناہ یا کفر کی وجہ سے اس کا رزق بند کر دیں، کیونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نیکی یا بدی کی وجہ سے رزق بند کرنے سے یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ہاں! اللہ کی تقدیر کے مطابق مومن کا رزق کم یا زیادہ ہو سکتا ہے اور کافر کا بھی۔